تازہ ترین

پاک سعودی تعلقات کے بانی علامہ محمد اسد کی29 ویں برسی

آج علامہ محمد اسف کا یومِ وفات ہے، وہ متعدد اہم کتابوں کے مصنف، پاکستان کے پہلے پاسپورٹ کے حامل اور پاک سعودی تعلقات کی بنیاد رکھنے والے سرکاری افسر تھے۔

پاکستان کی ابتدائی بیوروکریسی میں شامل انتہائی اہم شخص علامہ محمد اسد پیدائشی طور پر ایک یہودی تھے، ان کا پیدائشی نام لیو پولڈویز تھا، اور وہ سنہ 1900 موجودہ یوکرین کے شہر لیویو میں پیدا ہوئے جو اس وقت آسٹروہنگرین سلطنت کا حصہ تھا۔

بیسویں صدی میں امت اسلامیہ کے علمی افق کو جن ستاروں نے تابناک کیا تھا ان میں جرمن نو مسلم محمد اسد کو ایک منفرد مقام حاصل ہے۔ اسد کی پیدائش ایک یہودی گھرانے میں ہوئی۔ 23 سال کی عمر میں ایک نو عمر صحافی کی حیثیت سے عرب دنیا میں تین سال گزارے اور اس تاریخی علاقے کے بدلتے ہوئے حالات کی عکاسی کے ذریعے بڑا نام پایا لیکن اس سے بڑا انعام ایمان کی دولت کی بازیافت کی شکل میں اس کی زندگی کا حاصل بن گیا۔

ستمبر 1926ء میں جرمنی کے مشہور خیری برادران میں سے بڑے بھائی عبدالجبار خیری کے دست شفقت پر قبول اسلام کی بیعت کی اور پھر آخری سانس تک اللہ سے وفا کا رشتہ نبھاتے ہوئے اسلامی فکر کی تشکیل اور دعوت میں 66 سال صرف کرکے بالآخر 1992ء میں خالق حقیقی سے جا ملے۔

لیوپولڈ ویز کے اہل خانہ نسلوں سے یہودی ربی تھے لیکن ان کے والد ایک وکیل تھے۔ محمد اسد نے ابتدائی عمر میں ہی عبرانی زبان سیکھ لی تھی۔ بعد ازاں ان کے اہل خانہ ویانا منتقل ہو گئے جہاں 14 سال کی عمر میں انہوں نے اسکول سے بھاگ کر آسٹرین فوج میں شمولیت کی کوشش کی تاکہ پہلی جنگ عظیم میں شرکت کرسکیں تاہم ان کا خواب آسٹرین سلطنت کے ٹوٹنے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا۔ جنگ کے بعد انہوں نے جامعہ ویانا سے فلسفہ اور تاریخ فن میں تعلیم حاصل کی لیکن یہ تعلیم بھی ان کی روح کی تشفی کرنے میں ناکام رہی۔

سنہ 1920ء میں ویانا چھوڑ کر وسطی یورپ کے دورے پر نکل پڑے اور کئی چھوٹی بڑی نوکریاں کرنے کے بعد برلن پہنچ گئے جہاں انہوں نے صحافت کو منتخب کیا اور جرمنی اوریورپ کے مؤقر ترین روزنامے ‘‘Frankfurter Zeitung’’میں شمولیت اختیار کی۔ 1922ء میں وہ بیت المقدس میں اپنے چچا سے ملاقات کے لیے مشرق وسطی روانہ ہوئے۔

علامہ محمد اسد

مشرق وسطی سے واپسی کے بعد جرمنی میں قیام کے دوران ایک واقعے کے نتیجے میں انہوں نے قرآن مجید کا مطالعہ کیا اور سورۂ تکاثر ان کے قبول اسلام کا باعث بنی۔ انہوں نے برلن کی سب سے بڑی مسجد میں اسلام قبول کر لیا اور ان کا نام تبدیل کرکے محمد اسد رکھ دیا گیا۔ ان کے ساتھ اہلیہ ایلسا نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ محمد اسد نے اخبار کی نوکری چھوڑ کر حج بیت اللہ کا قصد کیا۔

بیت اللہ پرپہلی نظر پڑنے کے 9 دن بعد اسد کی زندگی ایک نئے موڑ پر آگئی، ایلسا خالق حقیقی سے جا ملیں۔ بعد ازاں اسد نے مکہ میں قیام کے دوران شاہ فیصل سے ملاقات کی جو اس وقت ولی عہد تھے اور بعد ازاںسعودی مملکت کے بانی شاہ عبدالعزیز السعود سے ملاقات کی۔ انہوں نے مکہ و مدینہ میں 6 سال گزارے اور عربی،قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ کی تعلیم حاصل کی۔

سنہ 1932ء میں وہ ہندوستان آ گئے اور شاعر مشرق علامہ محمد اقبال سے ملاقات کی۔ 1939ء میں وہ اس وقت شدید مسائل کا شکار ہو گئے جب برطانیہ نے انہیں دشمن کا کارندہ قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا۔ محمد اسد کو 6 سال بعد، 1945ء میں رہائی ملی۔

سنہ 1947ء میں قیام پاکستان کے بعد وہ پاکستان آ گئے اور نئی ریاست کی نظریاتی بنیادوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ انہیں پہلا پاکستانی پاسپورٹ جاری کیا گیا۔ بعد ازاں انہیں پاکستان کی وزارت خارجہ کے شعبہ مشرق وسطی میں منتقل کر دیا گیا جہاں انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے پاکستان کے تعلقات مضبوط کرنے کا کام بخوبی انجام دیا۔

علامہ محمد اسد کی ہی کاوشوں سے سعودی عرب میں پاکستان کا پہلا سفارت خانہ کھلا تھا۔پاکستان کو بنے تین سال ہو چکے تھے۔ یہ 1951 تھا‘ ابھی تک سعودی عرب میں پاکستان کا سفارت خانہ قائم نہ ہو سکا تھا ! دوسری طرف بھارت کامیابیوں پر کامیابیاں حاصل کر رہا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم پنڈت جواہرلال نہرو نے سعودی عرب کا دورہ کیا۔

مصر میں متعین پاکستانی سفیر سعودی عرب میں پاکستانی امور نمٹاتا تھا۔ جدہ میں ایک بےضابطہ قونصل خانہ تھا۔ مئی1951ء میں پاکستان نے فیصلہ کیا کہ سفارت خانہ کھولنے کی اجازت حاصل کرنے کے لیے سعودی عرب میں ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجا جائے۔ لیاقت علی خان وزیراعظم تھے۔ انہوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر مولوی تمیزالدین خان کو اس وفد کا سربراہ مقرر کیا لیکن عملاً وفد کی سربراہی جس شخص کے سپرد تھی ان کا نام محمد اسد تھا۔ وہ اس وقت وزارت خارجہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھے۔

محمد اسد سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز بن سعود کے منہ بولے بیٹے تھے۔ عربوں کی طرح عربی بولتے تھے۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ فیصل (جو بعد میں بادشاہ بنے) محمد اسد کے پرانے دوست تھے۔ محمد اسد نے نہ صرف بھارتی لابی کو ناکام کرتے ہوئے بادشاہ سے سفارت خانہ قائم کرنے کی اجازت بھی حاصل کر لی۔ اس وفد میں آزاد کشمیر کی نمائندگی صدر آزاد کشمیر کے معاون یعقوب ہاشمی کر رہے تھے۔ انکے الفاظ میں ’’پاکستانی وفد کے قائد سمیت ہر ممبر نے محسوس کر لیا تھا کہ اگر علامہ اسد ساتھ نہ ہوتے تو شاید وفد کو بادشاہ سے ملاقات کا موقع بھی نہ مل سکتا۔

علامہ کی گفتگو کا سعودی حکمران پر اس قدر گہرا اثر ہوا کہ نہ صرف انہوں نے سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دیدی بلکہ ہمیشہ کیلئے اس نوزائیدہ اسلامی مملکت کو سلطنت عریبیہ سعودیہ کے انتہائی قریبی دوست کی حیثیت میں منتخب کر لیا۔ آج ملت اسلامیہ پاکستان کے سعودی عرب کے ساتھ جو گہرے بردرانہ مراسم ہیں وہ اسی وقت سے چلے آ رہے ہیں۔

بعد ازاں اپنی وزارت میں پطرس بخاری سے کچھ اختلافات کے سبب انہوں نے ملازمت چھوڑدی،محمد اسد نے اپنی اسلامی زندگی کے 66 سال عرب دنیا،ہندوستان، پاکستان اور تیونس میں گزارے اور آخری ایام میں اس کا قیام اسپین کے اس علاقے میں رہا جو اندلس اور عرب دنیا کا روحانی و ثقافتی حصہ تھا بلکہ آج بھی اس کی فضائیں باقی اسپین سے مختلف اور عرب دنیا کے ہم ساز ہیں۔

محمد اسد 1955ء میں نیویارک چھوڑ کر اسپین میں رہائش پزیر ہوئے۔ 17 سال کی کاوشوں کے بعد 80 برس کی عمر میں انہوں نے اپنی زندگی کے سب سے بڑے خواب "قرآن پاک کی انگریزی ترجمہ و تفسیر” کو تکمیل تک پہنچایا۔ وہ 20 فروری 1992ء کو اسپین میں ہی خالق حقیقی سے جا ملے۔

ان کی تصانیف کو دنیا بھر میں شہرت حاصل ہے اور ان شہرت یافتہ کتابوں میں اسلام ایٹ دی کراس روڈ، روڈ ٹو مکہ، پرنسپل آف اسٹیٹ اینڈ گورننس ان اسلام، دی میسج آف اسلام اور صحیح بخاری کا انگریزی ترجمہ شامل ہے۔

Comments

- Advertisement -