تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

عہد ساز شخصیت نیاز فتح‌ پوری کا تذکرہ

بلاشبہ برصغیر پاک و ہند کا ہر گھرانہ اور ہر وہ ادارہ نیاز فتح پوری کے نیاز مندوں میں شامل رہا جس میں جویانِ علم اور تعلیم و تعلّم کے شیدا موجود تھے۔

کون تھا جو ان کی علمیت سے مرعوب نہ تھا اور ان کی شخصیت کے سحر میں گرفتار نہ رہا ہو۔ نیاز صاحب کہیں ایک افسانہ نگار کے روپ میں سامنے آتے تو کسی کے لیے دقیق موضوعات پر ان کی گفتگو اہم تھی۔ کوئی فلسفیانہ مسائل کو سلجھانے کے ان کے انداز سے متأثر تھا، کوئی مذہبی اعتقادات اور تاریخی موضوعات پر ان کی مدلّل بحث کو پسند کرتا تھا۔

ایک زمانہ تھا کہ نیاز صاحب کی نثر کا ڈنکا بجتا تھا۔ افسانے ہی نہیں‌ ان کے ناولٹ اور انشائیے، مذہب اور سائنس سے متعلق ان کے علمی اور تحقیقی مضامین، اس پر ہندوستان بھر میں اٹھائے جانے والے سوالات اور اس کے ذیل میں مباحث کے ساتھ وہ تراجم جو نیاز صاحب کے قلم سے نکلے، ان کی دھوم تھی۔ نیاز فتح پوری کی متنازع فیہ کتاب ’’من و یزداں‘‘ اور رسالہ ’’نگار‘‘ نے برصغیر کے علمی اور ادبی حلقوں کے ساتھ عام قارئین کی فکر کو بلند کیا اور ان کے علم میں خوب اضافہ کیا۔

نیاز فتح پوری کو عقلیت پسند کہا جاتا ہے جنھوں نے اردو ادب کی مختلف اصناف کو اپنی فکر اور تخلیقات سے مالا مال کیا۔ وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقّاد، محقق، مفکّر، عالم دین، مؤرخ، ماہر نفسیات، صحافی اور مترجم تھے۔ ان کی تحریریں گوناگوں ادبی اور علمی موضوعات پر اردو زبان کا بے مثال سرمایہ ہیں۔ نیاز فتح پوری کی ادبی اور علمی سرگرمیوں کا میدان بہت وسیع تھا جسے انھوں نے رسالہ ’’نگار‘‘ کے ذریعے عام کیا۔ اس رسالے میں ادب، فلسفہ، مذہب اور سائنس سے متعلق مضامین شایع ہوتے تھے جن کی بدولت مختلف پیچیدہ موضوعات اور ادق مسائل پر مباحث اور غور و فکر کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیاز فتح پوری نے جدید نفسیات، ہپناٹزم اور جنسیات پر بھی لکھا اور خوب لکھا۔ 1924 کے نگار میں ’’اہلِ مریخ سے گفتگو کا امکان‘‘ اور ’’جنگ کا نقشہ ایک صدی بعد‘‘ 1935 میں ’’چاند کا سفر‘‘ جیسے مضامین نیاز فتح پوری کی تخلیقی صلاحیتوں، ان کے تجسس اور سائنسی رجحان کا پتا دیتے ہیں۔ عقلیت پسندی کے سبب نیاز صاحب کو سخت مخالفت اور کڑی تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان پر مذہبی اور قدامت پرست حلقوں کی جانب سے فتویٰ اور بگاڑ کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔

24 مئی 1966ء کو نیاز فتح پوری کا انتقال ہوگیا تھا۔ ان کی سوانح عمری پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ 28 دسمبر 1884ء کو انھوں نے یوپی کے ضلع بارہ بنکی میں آنکھ کھولی تھی اور شروع ہی سے ان کا رجحان علم و ادب کی جانب رہا۔ غور و فکر کی عادت نے انھیں‌ مختلف موضوعات اور مسائل کو عقل اور دانش کے زور پر الگ ہی انداز سے دیکھنے اور سمجھنے پر آمادہ کیا۔ 1922ء میں نیاز فتح پوری نے علمی و ادبی رسالہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو داں حلقوں میں روشن خیالی کی مثال بن گیا۔ علّامہ نیاز فتح پوری نے 35 کتابیں یادگار چھوڑی ہیں جن میں من و یزداں، نگارستان، شہاب کی سرگزشت، جمالستان اور انتقادیات بہت مقبول ہیں۔

رسالہ نقوش کے مدیر محمد طفیل لکھتے ہیں، نیاز صاحب نے جو کچھ بھی امتیاز حاصل کیا۔ وہ اپنے قلم کے سحر سے حاصل کیا۔ لکھنے کے لیے کسی اہتمام کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ باتیں بھی کرتے جاتے ہیں۔ لکھتے بھی جاتے ہیں۔ گلوری منہ میں ہو گی۔ خوں خوں کر کے باتوں میں ساتھ دیں گے۔ ضرورت پڑی تو پیک نگل کر بولیں گے: ’’یہ آپ نے کیسے سمجھ لیا کہ میں کام میں مشغول ہوں۔‘‘ حافظہ بلا کا پایا ہے۔ ہر چیز، ہر کتاب ان کے ذہن میں منتقل ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بڑے بڑے کام صرف چند دنوں میں کر ڈالے۔ ان کے ہاں آمد ہی آمد ہے۔ آورد نام کو نہیں۔ الفاظ واقعی ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں۔ یہ کمال میں نے صرف انیس، جوش اور نیاز میں دیکھا۔ باقی سب کے ہاں کاری گری ہے۔

نیاز صاحب تقسیمِ ہند کے فوراً بعد نہیں بلکہ 1962ء میں ہجرت کر کے کراچی آئے تھے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں "نشانِ سپاس” سے نوازا تھا۔علّامہ نیاز فتح پوری کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

Comments

- Advertisement -