کل میں نے میو اسپتال میں ایک ضرورت مند مریض کے لیے خون بھی دیا۔ اس کا نتیجہ ننّھا کے کارٹون کی شکل میں ظاہر ہوا۔ بیچارہ ایک غریب نیپالی طالبِ علم تھا، شدید بیمار۔
میں پاکستان ٹائمز کے دفتر واپس گئی تاکہ کوئی مدد مل جائے، مگر کسی نے خون دینے پر ہاں نہیں کی۔ پھر میں نے آرٹسٹ بٹ سے پوچھا۔ وہی لمبا چوڑا ویٹ لفٹر، اس نے بھی منع کر دیا، کہنے لگا، ”میں دیکھنے میں طاقت ور لگتا ہوں لیکن اصل میں ہوں نہیں۔“ تو میں اس شدید گرمی میں واپس گئی اور جا کر لیٹ گئی اور خون کی ایک بوتل دے دی۔
میں نے لڑکیوں کو فون کر کے بتا دیا تھا کہ ہو سکتا ہے مجھے دیر ہو جائے اور اس کی وجہ بھی بتا دی تھی…. اور جب میں گھر واپس پہنچی ہوں تو سارے کے سارے بالکونی میں لٹکے ہوئے تھے اور بے چینی سے میرا انتظار کر رہے تھے۔ ان کودیکھ کر میں نے اپنی سائیکل کی گھنٹی بجائی اور ہاتھ بھی ہلایا۔ ان سب نے مجھے تقریباً بستر پر لٹا ہی دیا تھا۔ پھر میں نے ان کو بتایا کہ بھئی سب ٹھیک ہے، بھلا سوچو، ویٹ لفٹر اور اُن جیسوں کے لیے بھی مشکل ہو گیا۔
دن میں گرمی ناقابلِ برداشت ہے۔ ہم صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہیں، مگر راتیں پھر بھی ٹھنڈی ہیں۔ پریشانیوں کا ایک سلسلہ ختم نہیں ہوتا کہ دوسرا شروع ہو جاتا ہے۔ چیزوں کی قیمتوں میں آگ لگی ہوئی ہے۔ ٹوتھ پیسٹ کی ایک ٹیوب 3 روپے 12 آنے کی، لکس صابن کا ایک پیکٹ 4 روپے کا۔ ہم نے گھر میں ٹوتھ پاؤڈر بنا لیا تھا جو دو مہینے چلا! بہت سے لوگ اس کے بغیر ہی گزارا کر رہے ہیں۔
(عزیزِ دِلم نامی کتاب میں شامل یہ خط عالمی شہرت یافتہ شاعر فیض کے فیض کو ایلس فیض نے لکھا تھا، اسے نیّر رباب نے اردو میں ترجمہ کیا تھا جس سے چند پارے یہاں نقل کیے گئے ہیں)