نیو یارک : معروف مسلم امریکی سپر ماڈل حلیمہ عدن نے فیشن انڈسٹری کو خیرباد کہہ دیا، ان کا کہنا ہے کہ فیشن انڈسٹری نے ان کو اپنے مذہبی عقائد سے دور رہنے پر مجبور کیا، جس پر ان کا دل مطمئن نہیں تھا۔
حلیمہ عدن19 ستمبر 1997 کو پیدا ہوئیں، صومالی امریکی فیشن ماڈل کو مس مینیسوٹا یو ایس اے کے مقابلے میں حجاب پہننے والی پہلی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔
معروف امریکی سپر ماڈل حلیمہ عدن نے انسٹاگرام پوسٹس کی ایک سیریز میں فیشن انڈسٹری کو الوداع کہنے کا اعلان کیا ہے۔ حلیمہ عدن نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ فیشن انڈسٹری نے انہیں اپنے مذہبی عقائد سے دور رہنے پر مجبور کیا، جس پر ان کا دل مطمئن نہیں تھا۔
صومالی نژاد امریکی ماڈل حلیمہ عدن نے فیشن انڈسٹری چھوڑنے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ رن وے فیشن شو چھوڑ رہی ہے کیونکہ اس شعبے نے ان کو اپنے مذہب سے بھٹکنے پر مجبور کیا۔
میگا فیشن لیبل کی نمائندگی کرتے ہوئے حجاب پہننے والی پہلی ماڈل عدن نے اپنے پیغام میں لکھا کہ مجھے اس انڈسٹری میں رہتے ہوئے ذہنی سکون نہیں مل رہا تھا۔
The Queen has finally won 😂👑🙌🏾 as tf she should because she’s the reason for all my success and happiness ♥️✊🏿🥺 my new goal in life is to just make her proud! My best friend! My whole heart ❤️ https://t.co/1Jh6rSxIo7
— Halima Aden (@Kinglimaa) November 25, 2020
انڈسٹری میں ایک سیاہ فام مسلم خاتون کی حیثیت سے اپنی کامیابی کے باوجود عدن نے کہا کہ وہ اکثر دباؤ کا شکار رہتی ہیں کیونکہ انہوں نے فوٹو شوٹس کے دوران بے چینی محسوس کیا ہے انہوں نے کہا کہ عالمی وبا کورونا وائرس کی وجہ سے میری آنکھیں کھل گئیں۔
کینیا کے ایک پناہ گزین کیمپ میں پیدائش کے سات سال بعد امریکہ منتقل ہونے والی عدن نے کہا کہ مجھے آخر کار احساس ہوگیا ہے کہ میں اپنے حجاب کی حالت ہی میں چین و سکون محسوس کررہی ہوں۔
ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں عدن کو اپنی والدہ کے ساتھ دکھایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ میں اپنے لئے ایک مؤقف رکھتی ہوں لیکن میں ان تمام لوگوں کے لئے بھی ایک مؤقف رکھتی ہوں جنہوں نے فیشن سے اپنی جان کھو دی۔
واضح رہے کہ عدن نے پہلی بار سال 2016 میں شہرت حاصل کی تھی جس کے بعد ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ تب ہوا جب وہ حجاب پہننے والی پہلی خواتین ماڈلز میں سے ایک بن گئیں۔ تب سے وہ برٹش ووگ کے سرورق پر اور نیو یارک فیشن ویک میں رن ویز پر نمودار ہوتی رہتی ہیں۔