تازہ ترین

مولانا عامر عثمانی کا تذکرہ جن کی نظم سوشل میڈیا پر خاصی مقبول ہے

آج اردو کے معروف شاعر، مصنّف مولانا عامر عثمانی کی برسی ہے جن کی تخلیقات کا نمایاں پہلو ان کی طنز نگاری ہے۔ وہ ایک محقق بھی تھے جن کا قلم دینی تعلیمات کے فروغ اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے ہوئے لوگوں کی اصلاح کے لیے متحرک رہا۔ چند برسوں کے دوران مولانا عامر عثمانی کی ایک نظم سوشل میڈیا کے ذریعے ہر خاص و عام تک پہنچی ہے۔ یہ نظم انسانوں کی بے بسی، جبر اور ظلم کی منظر کشی کرتی ہے اور کسی بھی معاشرے میں‌ ناانصافی پر عوام کے جذبات کی عکاس ہے۔

اس نظم کا ایک بند ملاحظہ کیجیے:

آج بھی میرے خیالوں کی تپش زندہ ہے
میرے گفتار کی دیرینہ روش زندہ ہے
آج بھی ظلم کے ناپاک رواجوں کے خلاف
میرے سینے میں بغاوت کی خلش زندہ ہے
جبر و سفاکی و طغیانی کا باغی ہوں میں
نشۂ قوّتِ انسان کا باغی ہوں میں
جہل پروردہ یہ قدریں یہ نرالے قانون
ظلم و عدوان کی ٹکسال میں ڈھالے قانون
تشنگی نفس کے جذبوں کی بجھانے کے لیے
نوعِ انساں کے بنائے ہوئے کالے قانون
ایسے قانون سے نفرت ہے عداوت ہے مجھے
ان سے ہر سانس میں تحریکِ بغاوت ہے مجھے

پاکستان میں ان دنوں‌ ایک طرف سیاسی افراتفری، انتشار بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب عوام مسائل اور مصائب کے بوجھ تلے دبتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ ظلم و ستم اور ناانصافی کے واقعات عام ہیں‌۔ لوگ لٹیروں کے نشانے پر ہیں۔ لوٹ مار کے دوران مزاحمت کرنے پر جرائم پیشہ افراد کئی شہریوں کو ابدی نیند سلا چکے ہیں۔ ایسے ہی افسوس ناک واقعات کی فوٹیجز کے پسِ پردہ ایک گلوکار کی آواز میں‌ ہم یہ نظم سنتے ہیں جس کے اشعار ناانصافی اور لاقانونیت کا شکار ہونے والوں کی بے بسی اور کرب کو ظاہر کرتے ہیں۔ لوگوں میں‌ اپنی نقدی اور اسباب کے چھن جانے اور زندگی سے محروم ہوجانے کے خوف کو اجاگر کرتی یہ نظم بحیثیت شہری ان کے حقوق کی پامالی اور عدم تحفظ کا نوحہ بھی ہے۔ عامر عثمانی کی یہ نظم عوام کو بغاوت پر اکساتی ہے۔ شاعر نے اپنی اس نظم کو عنوان بھی بغاوت ہی دیا ہے۔

مولانا عامر عثمانی دیو بند کے فیض یافتہ تھے۔ دیوبند کے کتب خانے سے انہوں نے بہت استفادہ کیا۔ انھوں نے نظم اور نثر دونوں میں‌ اپنے کمالِ فن کا اظہار کیا اور طنز نگار کی حیثیت سے مخصوص شناخت بنائی۔ مولانا عامر عثمانی کا سنہ پیدائش 1920ء اور ان کا آبائی علاقہ دیوبند ہے۔ ان کے والد کا نام مطلوبُ الرّحمٰن تھا جو انجنیئر تھے۔ عامر عثمانی نے معاش کے لیے کئی راستے اختیار کیے جن میں‌ دیوبند سے فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنا بھی شامل ہے۔ اس سے ضروریات پوری نہ ہوئیں تو شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس فن میں طاق ہوئے۔ تجلی وہ رسالہ تھا جس کے کئی سرورق مولانا عامر عثمانی نے بنائے۔ پھر کسی نے ان کو بمبئی کی فلم نگری کی طرف دھکیل دیا، مگر ان کی روح اس دنیا سے بیزار ہی رہی اور عامر عثمانی جلد ہی دیوبند لوٹ گئے۔ یہیں‌ انہوں نے ذریعۂ معاش کے طور پر 1949 میں تجلّی جیسے رسالے کا اجراء کیا۔ اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم عرصہ میں مقبولیت حاصل کی۔ یہ رسالہ مولانا عامر عثمانی کی وفات تک 25 سال مسلسل شائع ہوتا رہا۔

عامر عثمانی نے جہاں‌ شاعری کے ذریعے علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ اپنا تعارف کروایا، وہیں اپنے کالموں‌ کی بدولت اسلامیانِ ہند کو اپنی جانب متوجہ کیا اور مقبول ہوئے۔ ان کے کالم ’’مسجد سے مے خانے تک‘‘ کے عنوان سے تجلّی میں شائع ہوئے جن میں‌ مولانا کا بامقصد انداز اور طرزِ تحریر طنزیہ واضح ہوتا تھا۔ وہ ہندوستانی مسلمانوں کو مغرب کی نقالی، بدعات و خرافات کے ساتھ علمائے وقت کو ان کے غلط فیصلوں پر گرفت کرنے سے بھی نہ رکے اور دینی اور سماجی اصلاح کا کام انجام دیا۔

مولانا عامر عثمانی جماعتِ اسلامی (ہند) کے بڑے حامی تھے۔ انہوں‌ نے خلافت و ملوکیت نمبر نکالا اور مولانا مودودی کے خلاف کی جانے والی باتوں‌ کا جواب دیا اور جماعت اسلامی کے مخالفین کو دلائل سے رام کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ان کا انداز جارحانہ ہی رہا۔

بھارت میں‌ علم و ادب کی دنیا میں مولانا عامر عثمانی کی شہرت کے بعد وہ وقت بھی آیا جب بیماری کی وجہ سے ڈاکٹروں نے ان کو چلنے پھرنے سے منع کر دیا تھا اور ان کی علمی و ادبی سرگرمیوں کا سلسلہ ازحد محدود ہوچکا تھا۔ مگر ایک موقع پر وہ سفر کر کے پونے (بھارت) میں منعقدہ ایک مشاعرے میں شرکت کے لیے پہنچ گئے۔ یہ طویل سفر تھا اور وہاں‌ عامر عثمانی نے اپنی مشہور نظم ’’جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں‘‘ سنائی۔ اس نظم کو سنانے کے فقط دس منٹ بعد ہی مولانا عامر عثمانی اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئے۔ یہ 12 اپریل 1975ء کی بات ہے۔

یوں داغِ‌ مفارقت دے جانے والے عامر عثمانی پر اخبارات اور رسائل میں تعزیتی مضامین کا انبار لگ گیا۔ ماہر القادری جیسے بلند مرتبہ شاعر اور نثار نے لکھا:

’’مولانا عامر عثمانی کا مطالعہ بحرِ اوقیانوس کی طرح عریض و طویل اور عمیق تھا۔ وہ جو بات کہتے تھے کتابوں کے حوالوں اور عقلی و فکری دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے۔ پھر سونے پر سہاگہ زبان و ادب کی چاشنی اور سلاست و رعنائی۔ تفسیر، حدیث، فقہ و تاریخ، لغت و ادب غرض تمام علوم میں مولانا عامر عثمانی کو قابل رشک بصیرت حاصل تھی۔ جس مسئلے پر قلم اٹھاتے اس کا حق ادا کر دیتے۔ ایک ایک جزو کی تردید یا تائید میں امہاتُ الکتب کے حوالے پیش کرتے۔ علمی و دینی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت ہوتی کہ بڑے بڑے چغادری اور اہلِ قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔‘‘

مولانا عامر عثمانی کا شعری مجموعہ یہ قدم قدم بلائیں، حفیظ جالندھری کے شاہ نامۂ اسلام کے طرز پر شاہ نامۂ اسلام (جدید) اور کالموں پر مشتمل کتاب شایع ہوچکی ہے۔

Comments

- Advertisement -