تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

تقسیم کی ادھوری کہانی – امرت کور

”بھان….! وہ سنت ہے، سادھو ہے، گیانی ہے یا درویش …. جو کچھ بھی تم اسے کہہ لو، وہ کچھ ہے ایسی ہی چیز“۔ میں نے کچھ کچھ سمجھتے ہوئے امرت کور پر تبصرہ کیا۔ ہم دونوں حویلی کے درمیان میں آبیٹھے تھے اور ملازم سے
چائے لانے کا کہہ کر وہیں باتیں کرنے لگے تھے۔
”میں بھی یہ بات سمجھ رہا ہوں۔ کیونکہ اس نے پنجابی شاعر بلھے شاہ کا جو کلام پڑھا ہے نا، اس میں وہی تمہارا مسئلہ ہے۔ کلام سنا کر اس نے یہ باور کرا دینے کی کوشش کی ہے کہ وہ تمہارا مسئلہ سمجھ گئی ہے، لیکن….“ یہ کہتے
ہوئےوہ خاموش ہو گیا پھر میری طرف دیکھ کر بولا۔ ”لیکن جو اس نے دوسرا کہا ہے وہ کیا ہے؟ اس کی سمجھ تو آنی چاہیے نا؟“
”بالکل….! میں خود اس تجسس میں ہوں۔ باقی میں بھی تو تیری طرح ہی ہوں“۔ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”اصل میں ان کا سمجھنا اس لیے ضروری ہو گیا ہے کہ شام ہونے سے پہلے پہلے پورے گاؤں میں یہ خبر پھیل جائے گی کہ امرت کور کی خاموشی ٹوٹ گئی ہے۔ کیسے ٹوٹی، کیوں ٹوٹی…. اس کے ساتھ ہی تُو اور میں زیر بحث آئیں
گے۔ لوگ ہم سے پوچھیں گے ، تو ہم کیا جواب دیں گے“۔
”یہ کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے بھان سنگھ جی، جن سوالوں کے جواب ہمارے پاس نہیں۔ ان پر ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔ خاموشی ہم نے نہیں امرت کور نے توڑی ہے۔ سوال اس سے ہونا چاہئے“۔ میں نے اس کی پریشانی دور
کرنے کی کوشش کی۔


اس ناول کی گزشتہ اقساط پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”ہاں….! بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو، ہم کیوں پریشان ہوں۔ چلو لوگوں سے تو کسی طرح کہہ سن لیں گے، لیکن کیا ہم خود بھی یہ جاننا نہیں چاہیں گے۔ اس نے خاموشی نہ صرف توڑی، بلکہ تمہیں دیکھ کر جو لفظ کہے، پھر اس کا
تم سے والہانہ ملنے کا انداز اسے بھی نظر انداز کر دیں گے۔ یہ کیا گورکھ دھندا ہے یار“ اس نے اکتاتے ہوئے انداز میں کہا تو میں ہنس دیا۔ اس وقت ملازمہ ٹرے میں چائے لے کر آتی دکھائی دی۔ اس نے ٹرے رکھی اور واپس
پلٹ گئی۔ تو میں نے ہنستے ہوئے کہا۔
”یار جس طرح یہ سوال ہمارے سامنے آگئے ہیں نا یار…. اسی طرح ان کے جواب بھی مل جائیں گے۔ تو فکر نہ کر، اور اپنے اس دماغ پر زور نہ دے جو پہلے ہی تمہاری کھوپڑی میں نہیں ہے۔ چائے پی اور سکون کر….“
”بات تو تیری ٹھیک ہے یار، میں ایسے ہی پریشان ہو رہا ہوں“۔ اس نے اپنا سر جھٹکتے ہوئے کہا اور چائے کے پیالے کو اٹھا لیا۔ اگرچہ اس وقت ہمارے درمیان یہ موضوع باتوں کی حد تک ختم ہی گیا، لیکن میں پورے یقین سے
کہہ سکتا تھا کہ جس طرح مختلف سوال میرے ذہن میں پیدا ہو رہے تھے، بھان سنگھ بھی کچھ ایسی ہی حالت میں تھا۔ کیونکہ باتیں کرتے کرتے اچانک وہ بھی کہیں کھو جاتا تھا۔ ہم چائے پی چکے تووہ اٹھتے ہوئے بولا۔ ”چل آیار،
کھیتوں کی طرف چلیں، لیکن اگر تُو آرام کرنا چاہتا ہے تو اوپر کمرے میں جاکر سوجا“۔
”نہیں چلتے ہیں۔ کھیتوں کی طرف ، اس ماحول کا اپنا ہی سرور ہے“۔ میں نے کہا اور اٹھ گیا۔ بھان سنگھ نے ہانک لگا کر ملازمہ کو بتایا اور ہم حویلی سے نکلتے چلے گئے۔
ہم گاؤں سے نکل کر کافی دور تک کھیتوں میں چلے گئے تھے۔ بھان سنگھ اپنے بچپن کی باتیں بتاتا جارہا تھا۔ یونہی چلتے ہوئے ہم ان کی زمینوں پر موجود کنویں پر چلے گئے۔ وہ اب بھی اسے کنواں ہی پکارتے تھے، حالانکہ اب وہاں
اس کا وجود نہیں رہا تھا۔ بجلی سے چلنے والا ٹیوب ویل تھا۔ مہال والا کنواں تو کب کا ختم ہو چکا تھا۔ جیسے بیل چلاتے تھے۔ ان کا ایک نوجوان سا ملازم وہاں تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی اس نے وہاں بنے ہوئے ایک کمرے سے دو کرسیاں
نکالیں اور ہمارے قریب رکھ دیں۔ ہم وہاں پیپل کے گھنے درخت کے تلے بیٹھ گئے۔ گندم کی فصل پکنے کے لیے اپنا رنگ بدل رہی تھی۔ کسی کسان کے لیے یہ دورانیہ بڑا صبر آزما ہوتا ہے۔ اپنے بچپن اور لڑکپن کی باتیں سناتے
ہوئے اچانک بھان سنگھ نے کہا۔
”یار وہ امرت کور نے تیرے جانے پر بھی پابندی لگا دی ہے، اب وہ یہ کہے دو مہینے، لیکن تیرا ویزہ….“
میں سمجھ گیا کہ وہ اب تک وہیں کہیں گرو دوارے میں امرت کور کے کہے ہوئے لفظوں میں ہی اٹکا ہوا ہے۔ وہ اس وقت نہیں نکلے گا جب تک کوئی سمجھ میں آنے والی بات اس کی عقل میں نہ پڑ جائے۔ میں مجبور اس لیے تھا کہ
مجھے بھی تو کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی اور میں کسی بھی اٹکل پچو سے یا خواہ مخواہ کی بحث سے اپنی جان چھڑانا چاہتا تھا۔
”او کچھ نہیں ہوتا، میں بس دو دن مزید ہوں تیرے پاس، پھر میں نے چلے جانا ہے۔ کیونکہ تیرے کہنے کے مطابق امرت کور نے میرے سر پر ہاتھ رکھ دیا ہے۔ میرا کام تو ہو گیا، اب تُو جانے اور تیری امرت کور“۔ میں نے
صاف لفظوں میں اپنے آئندہ پروگرام کے بارے میں بتا دیا۔ تو وہ قہقہہ لگا کر ہنس دیا، پھر ہنستے ہوئے بولا۔
”نہ پتر….! اب تُو اس وقت تک نہیں جا سکتا، جب تک وہ اجازت نہ دے“۔
”میں خود اس سے اجازت لے لوں گا“۔ میں نے سنجیدگی سے کہا۔
”یار….! اس کے لفظوں سے لگتا تھا کہ جیسے وہ تیرے انتظار میں ہے اور ….“
”خدا کے لیے بس کر دے یار“۔ اس بار میں نے واقعتا ًاکتاتے ہوئے کہا۔ ”چھوڑ دے یار اب“۔
”اوکے….! اب کوئی بات نہیں کروں گا، تُو ناراض نہ ہو“۔ اس نے بھی ایک دم سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ پھر اس نے بات بدل دی۔ ہم کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ پھر جب دل بھر گیا تو اٹھ کر واپسی کے لیے چل دیئے۔
حویلی میں سب آگئے ہوئے تھے۔ میری توقع کے مطابق ان لوگوں نے بھی مجھے حیرت اور تجسس سے دیکھا تو میں گھبرا گیا کہ یا خدا یہ میں کس چکر میں آگیا۔ یہ لوگ بھی مجھ سے وہی سوال کریں گے، میں جن کے بارے میں جانتا
ہی نہیں ہوں۔ پھر غنیمت یہ ہو ا کہ بھان سنگھ کے باپو اور چا چا دونوں نہیں تھے۔ انیت کورہی سے سامنا ہوا تھا۔ ہمیں دیکھتے ہی بولی۔
”بیٹھو پتر….! میں لنگر لاتی ہوں“۔
ہم دونوں وہیں دالان میں پڑی کرسیوں پر بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر بعد انیت کور برتنوں کی ٹرے اٹھائے آگئی اور کھانا ہمارے سامنے رکھ دیا۔ وہ دال اور سبزی ملا کر کوئی سالن بنایا ہوا تھا۔ اس کے ساتھ پتلی پتلی بڑی بڑی گندم کی
روٹیاں تھیں۔ جنہیں منڈے کہا جاتا ہے ۔ پانی وغیرہ قریب رکھ کر وہ بولی۔
”تم لوگوں نے گرو دوارے میں لنگر کیوں نہیں کھایا، کہاں چلے گئے تھے“۔
”بس ماں جی، ہم ادھر حویلی آگئے تھا“۔ میں نے جلدی سے کہا۔
”تم کہیں اس امرت کور کی اوٹ پٹانگ باتوں سے تو نہیں گھبرا گئے ہو۔ پتر….! اس کی باتوں پر زیادہ دھیان نہیں دینا۔ وہ ایسے کرتی رہتی ہے پاگل جو ہوئی“۔ انیت کور نے عام سے لہجے میں کہا تو میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور
لنگر کھانے کی طرف متوجہ رہا۔ یہ اچھا ہوا تھا کہ اس وقت میرے ذہن میں ابلتے ہوئے سوالوں کے آگے انہوں نے بند باندھ دیا تھا۔ ہم لنگر کھا چکے تو وہ برتن سمٹتے ہوئے بولیں۔ ”چلو جاؤ اوپر جا کر آرام کرو۔ شام کو باتیں
ہوں گی“۔
میں اس وقت چاہتا بھی یہ تھا۔ میں نے کوئی مزید بات نہیں کی اور اوپر کمرے کی طرف چلا گیا۔ میرے پیچھے ہی بھان سنگھ آگیا۔ پھر ہم جو سوئے تو شام ہی کی خبر لائے۔
شام ہوتے ہی میں ملحقہ غسل خانے میں خوب نہایا۔ پھر ہلکے پھلکے کپڑے پہن کر باہر جانے کے لیے تیار ہو گیا۔ بھان سنگھ مجھ سے پہلے ہی باہر چلا گیا ہوا تھا۔ میں ابھی باہر جانے کا سوچ رہا تھاکہ ان کی ملازمہ مجھے بلانے کے لیے
آگئی۔ صحن میں کافی ساری کرسیاں بچھی ہوئیں تھیں اور سارا خاندان وہیں بیٹھا ہوا تھا۔ وہاں تین مزید افراد تھے۔ جنہیں پہلے میں نے اس گھر میں نہیں دیکھا تھا۔ میرے بیٹھے ہی پردیپ سنگھ نے ان کا تعارف کراتے ہوئے کہا۔
”یہ سردار سر یندر سنگھ جی ہیں، یہ ساتھ میں ان کی استری ست نام کور جی اور ان کے ساتھ ان کی بیٹی گینیت کو رہیں۔ یہ خاص طور پر تم سے ملنے کے لیے آئے ہیں“۔
”جی بہت مہر بانی ان کی، میں شکر گزار ہوں ان کا“۔میں نے ممنونت بھرے لہجے میں کہا تو چاچی جسمیت کور بولی۔
”پتہ ہے پتر، یہ کون ہیں؟“ یہ کہتے ہوئے وہ فوری بولیں۔ ”خیر تمہیں کیا پتہ ہو گا وہ جو دن کے وقت تمہیں امرت کور ملی تھی نا، یہ اس کے بھائی اور بھابی ہیں یہ بہت خوش ہیں کہ تمہاری وجہ سے نہ صرف اس کی خاموشی ٹوٹی
بلکہ وہ اپنے حواسوں میں بھی آگئی ہے“۔
”کیسے؟“ میں نے چونکتے ہوئے پوچھا تو سریندر سنگھ بولا۔


دوام – مکمل ناول پڑھنے کے لیے لنک پر کلک کریں


”وہ گرو دوارے سے گئی ہے تو بہت خوش تھی۔ ان سب کے ساتھ ہنس ہنس کے باتیں کیں۔ ان کے بارے میں پوچھتی رہی۔ ان سے باتیں کرتی رہی۔ ان کے ساتھ کھاتی پیتی رہی۔ پہلے تو وہ شام کے وقت ایک چکر گاؤں لگا کر
آجاتی تھی لیکن آج وہ گھر سے نہیں نکلی“۔
”اور پتر پہلے اس نے ہمیشہ سفید لباس پہنا تھا۔ مگر آج جاتے ہی اس نے گہرے سبز رنگ کا لباس پہنا۔ باتیں بھی ساری اس نے ہوش مندوں والی کیں ہیں۔ جیسے پہلے کبھی پاگل تھی ہی نہیں“۔ ست نام کور نے اپنے طور پر مجھے
معلومات دیں۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھا۔ سبھی میری طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھ رہے۔ بس ایک تبدیلی تھی۔ دادی پرونت کور کے چہرے پر اب وہ تجسس ، حیرت اور تعجب نہیں تھا، اس کی جگہ دھیمی دھیمی مسکان تھیں
اور اس مسکان میں توپیار جھلک رہا تھا۔ میں اس تبدیل پر حیران تھا۔ چند لمحوں کے لیے خاموشی کے بعد چا چا امریک سنگھ بولا۔
”چلو اچھا ہے، ہمارے مہمان کی وجہ سے تمہارے پریوار کا ایک جی عقل مند ہو گیا“۔
”کوئی جی ہوتے ہیں نا رب کے پیارے، خوش قسمت، جن کی وجہ سے کسی کے دن پھر جاتے ہیں۔ ہم بس اس بچے کو دیکھنے آئے تھے۔ جس کی وجہ سے ہمیں یہ خوشی ملی“۔ سریندر پال سنگھ نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”بہن جسمیت….! تجھے تو معلوم ہے کہ کتنی منت مراد مانگی تھی کہ یہ ٹھیک ہو جائے۔ پر گورو جی جانے کیا بات تھی“۔ ست نام کور بولی تو پردیپ سنگھ نے جذب میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔
”ہر کام قسمت سے اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ جس کام کا جو وقت رب نے مقرر کیا ہو ا ہے، وہ تبھی ہوتا ہے، بس جی وسیلے بنتے ہیں۔ بہن امرت کور نے اس بچے بلال کے وسیلے سے ٹھیک ہونا تھا، رب کی مرضی اس میں تھی“۔
”مانتے ہیں بھائی جی“۔ ست نام کور نے خوشی بھرے لہجے میں کہا۔ پھر وہ فہرست سنانے لگی کہ کس کس جگہ کیا کیا منت اس نے مانی تھی۔ مجھے یہ سب مذاق لگ رہا تھا، بلکہ مجھے تو بھان سنگھ کے ساتھ آنا ہی مذاق لگ رہا تھا۔ مگر
ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا تھا کہ یہ کوئی مذاق ہے بلکہ مجھے یہ حقیقت لگ رہی تھی، اس میں کیا ڈرماائی پہلو پنہاں ہے۔ میں اس بارے کچھ نہیں کہہ سکتا تھا۔ کیونکہ جس وقت میں دوپہر کے وقت سونے کے لیے لیٹا تھا تو
امرت کور کے ساتھ جو وقت گزرا تھا وہ مجھے دوبارہ سے یاد آنے لگا تھا، خاص طورپر جب اس نے بلھے شاہ جی سرکار کے حوالے سے کلام پڑھا تو اس کا جذب بتا رہا تھا کہ وہ میری آمد کے بارے میں جان گئی ہے، اس کے علاوہ جس
شدت سے اس نے مجھے گلے لگایا، مجھے پیارکیا اور خاص طور پر وہ لفظ جو اس نے کہے کہ میں آگیا ہو، مطلب وہ میری منتظر تھی؟
”کہاں کھو گیا ہے پتر تو….بھائی سریندر جی تم سے کچھ پوچھ رہے ہیں“۔ چا چی جسمیت کور نے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا تو میں چونک گیا۔
”جی فرمائیں….!“ میں نے تیزی سے کہا تو سریندر سنگھ نے مسکراتے ہوئے چہرے سے پوچھا۔
”میں پوچھ رہا ہوں پتر کہ کچھ ہمیں سیوا کا موقع دو۔ ہمارے ساتھ ایک دو دن رہو مہمان بن کر“۔
”سردار جی، میں تو اپنے آپ کو پورے گاؤں کا مہمان سمجھ رہا ہوں۔ باقی جیسے آپ کی مرضی، میرا میزبان تو بھان سنگھ ہے۔ جیسے کہے گا میں تو ویسا ہی کروں گا“۔ میں نے بڑے اطمینان سے سارا بوجھ بھان سنگھ پر ڈال دیا کہ وہی
اس مصیبت کی جڑ ہے۔ اس لیے خود ہی بھگتے۔
”کیوں نہیں بھائی جی، واہ گرو نے آپ کو خوشی دی ہے تو آپ کا حق بنتا ہے۔ یہ دونوں ہی آپ کے مہمان بنیں گے۔ میں بتا دوں گی آپ کو“۔ انیت کور نے اس موقع کو سنبھال لیا۔ تب کچھ دیر وہ اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اٹھ
گئے۔ میں اس دوران خصوصی طور پر دادی پرونت کور کے چہرے تاثرات ضرور نوٹ کرتا رہا تھا کہ وہاں کیسے جذبات ہیں لیکن….! وہاں کچھ نہیں تھا، سوائے ہلکی ہلکی خوشی کے جو ان کے چہرے پر سے عیاں تھی۔ تبھی پردیپ
سنگھ نے میری طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”ویسے بلال پتر….! بھان سنگھ نے مجھے تمہارے بارے میں تھوڑا بہت بتایا تو تھا، لیکن اگر تم اپنے بارے میں خود بتاؤ تو مجھے اچھا لگے گا“۔
”آپ کس پہلو سے پوچھنا چاہیں گے؟“ میں نے پوچھا۔
”یہی کہ لاہور میں کہاں رہتے ہیں، باپو جی کیا کرتے ہیں، اپنے پریوار کے بارے میں بتاؤ“۔ انہوں نے خوش دلی سے کہا ۔
”میں اپنے خاندان کے ساتھ کبھی سمن آباد کے علاقے میں رہتا تھا۔ بہت چھوٹا تھا اس وقت جب میرے والد ایک جدید علاقے ماڈل ٹاؤن میں شفٹ ہو گئے تھے۔ ہم دو ہی بہن بھائی ہیں۔ بہن فرحانہ مجھ سے چھوٹی ہے۔ میری
والدہ ہیں اور میرے دادا جی، یہی ہمارا مختصر سا خاندان ہے۔ والد صاحب کا نام علی اکبر ہے۔ انہوں نے کچھ زیادہ تعلیم حاصل نہیں کی، لیکن لڑکپن ہی میں انڈسٹری کے ساتھ منسلک ہو گئے۔ پھر وہ دنوں میں ترقی کرتے گئے اور
آج ہمارا بہت اچھا بزنس ہے۔ چونکہ میرے والد خود نہیں پڑھ سکے تھے، مگر ان کے دل میں یہ حسرت تھی کہ مجھے خوب پڑھائیں لکھائیں۔ پھر اکلوتا بیٹا ہونے کی وجہ سے بھی خوب توجہ دی مجھ پر اور اب یہاں سے جاتے ہی ان
کے ساتھ بزنس دیکھوں گا“۔ میں نے تفصیل سے بتایا تو پرونت کور نے بڑے معنی خیز اندا زمیں پر تجسس لہجے میں پوچھا۔
”تمہارے دادا ابھی زندہ ہیں….“
”جی ، اﷲ کے کرم سے ان کا سایہ ہم پر ہے۔ مجھ سے بہت پیار کرتے ہیں“۔ میں نے بہت رسان سے بتایا۔
”کیسی صحت ہے ان کی“۔ انہوں نے پھر پوچھا۔
”جب میں بریڈ فورڈ گیا تھا، تب تو بہت اچھے تھے۔ چلتے پھرتے ہیں۔ مسجد جاتے ہیں، صبح کی واک کرتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو بہت کچھ خرید کر لاتے ہیں بازار سے۔ میری ان سے بات ہوتی رہتی ہے۔ وہ شدت سے میرے منتظر
ہیں۔ اب آپ نے یاد دلایا تو دل کرتا ہے ابھی اُڑکر ان کے پاس پہنچ جاؤں“۔ میں نے دادا جی کے ذکر پر جذباتی ہوتے ہوئے کہا۔ تو ہولے سے مسکرا دیں۔ تبھی پریتو نے شرارت سے مسکراتے ہوئے کہا۔
”دیکھا بڑے باپو جی، ہر بندہ اپنی عمر کے بندے کے بارے میں ہی پوچھے گا، آپ نے ان کے والد کے بارے میں پوچھا، دادی جی نے ان کے دادا کے بارے میں اور میں اب فرحانہ کے بارے پوچھ لیتی ہوں اور تائی جی آپ ان کی
امی کے بارے پوچھ لیں“۔
اس نے کچھ اس انداز سے کہا کہ ایک قہقہہ لگ گیا۔
”دیکھ امریک تیری بیٹی ….!“ انیت کور نے اسے پیار سے دیکھتے ہوئے کہا ، تو وہ ہنستے ہوئے بولا۔
”بیٹی میری ہے پر ساری تربیت تیری ہے، اب بھگتو“۔
”اچھا ویسے مذاق اپنی جگہ رہا، میں ایک صلاح دیتی ہوں، آپ سب سوچ لو“۔ وہ پُرتجسس انداز میں بولی۔
”وہ کیا“۔ امریک بولا۔
”کیوں نا بلال کے ہوتے ہوئے ہی بھان اور پریتوکی شادی کر دی جائے؟“ اس نے پیار سے پریت کی طرف دیکھا توہ تیزی سے اٹھ کر اندر چلی گئی۔
”ویسے خیال تو ٹھیک ہے“۔ پرویپ سنگھ نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
”آپ جو مرضی کرو جی، جب بیٹی دے دی تو دے دی، آج نہیں تو کل…. کل نہیں تو آج“۔ جسمیت کور نے کہا تو میں جلدی سے بولا۔
”دیکھیں….! میں ایک دو دن میں چلا جاؤں گا…. آپ اطمینان سے، ان کے بارے میں جو فیصلہ کریں، میں رابطہ میں رہوں گا، ممکن ہے میں خصوصی طور پر دونوں کی شادی پر دوبارہ آجاؤں۔ آپ اپنی خوشیوں کو بہت اچھے
انداز میں منائیں“۔
”یار تو دوہفتے تو کم از کم رہو“۔ امریک نے کہا۔
”نہیں چا چا جی، میں اب جاؤں گا۔ کل یا پرسوں نکل جاؤں گا۔ میرے گھر والے میرے منتظر ہوں گے۔ اب تک ان کے ساتھ کوئی رابطہ ہی نہیں ہوا۔ وہ پریشان ہوں گے“۔ میں نے اپنی مجبوری بتائی تو وہ سرہلانے لگے۔
”رابطے کی کیا پریشانی ہے، تم فون کر لو، انہیں تفصیل سے ہمارے میں بارے میں بتادو۔ ہم بھی ان سے بات کرلیں گے“۔ امریک سنگھ نے کہا۔
”چلیں میں ان سے رابطہ کر لیتا ہوں، لیکن میں بہت معذرت کروں گا کہ میں نے جانا ہے، پھر میں آجاؤں گا۔مجھے معلوم ہے کہ میری آواز جیسے ہی میرے والدین کے کانوں میں پڑی انہوں نے فوراً لاہور پہنچنے کا حکم دے دینا
ہے اور پھر مجھ سے بھی نہیں رہا جانا“۔
”اوکے….! جیسے تیری مرضی، پھر بھان کی شادی پر تو آجانا“۔ پردیپ سنگھ نے میری بات سمجھتے ہوئے کہا۔
”اور دوسری بات ….! یہ مجھے کہنے کی ضرورت نہیں کہ آپ بہت جلد لاہور آئیں گے“۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر کہا۔
”کیوں نہیں ضرور….! بلکہ تجھے دیکھ کر تو میں نے اس دفعہ بیساکھی پر جنم استھان جانے کا فیصلہ کر لیا ہوا ہے۔ میں تو یہ بھان اور پریتو کی شادی دیکھ رہا ہوں“۔ پردیپ سنگھ نے کہا تو پھر اس موضوع پر باتیں ہونے لگیں۔ کچھ دیر
مزید باتوں کے بعد ہم وہاں سے اٹھ گئے۔
میرا ارادہ تھا کہ میں فون کی بجائے کمپیوٹر سے اپنے گھر والوں کے ساتھ رابطہ کروں؟ کیونکہ میں نے انہیں نہیں بتایا تھا کہ میں بھارت کے سفر پر جارہا ہوں۔ سیاسی حالات اور خصوصاً بھارت سے روایتی دشمنی کے باعث وہ مجھے کبھی
اجازت نہ دیتے کہ میں مشرقی پنجاب جاؤں۔ کمپیوٹر کے ذریعے انہیں معلوم ہی نہیں ہونا تھا کہ میں کہاں ہوں۔ میرا دل ہمک گیا تھا، اس لیے میں نے بھان سنگھ سے پوچھا۔
”اوئے ادھر تیرا کوئی کمپیوٹر ہے۔ میں نے اپنا لیپ ٹاپ بک کروا دیا تھا اپنے سامان میں“۔
”پریتو کے پاس ہے اس کا لیپ ٹاپ ، اس سے لے لیتے ہیں آؤ“۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔ ہم دالان میں آئے تو دادی پرونت کور نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”بلال….! تیرے دادا کی کوئی تصویر ہے تیرے پاس“۔
”میرے پاس تو نہیں، مگر میں دکھا سکتا ہوں، ابھی پریتو سے کمپیوٹر لاتا ہوں تو اس میں سے….“
”تو دادی کے پاس بیٹھ میں لاتا ہوں لیپ ٹاپ“۔ بھان نے جلدی سے کہا اور پریتو کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اسے بس موقع چاہئے تھا۔ میں اور دادی وہیں تنہا رہ گئے۔ تب اس نے مجھ سے کہا۔
”تُو الجھن میں ہے نا کہ امرت کور کی خاموشی تجھے دیکھ کر کیوں ٹوٹی؟ تو جاننا چاہتا ہے؟“
”جی دادی….!“ان کے اچانک اس سوال پر میں چونک گیا۔
”تجھے دیکھ کر اس کی خاموشی ٹوٹنا ہی تھی۔ خود میں بھی تو تجھے دیکھ کر حیران رہ گئی تھی “۔ پرونت کور نے گہرے لہجے میں کہا تو میں حیرت سے ششدر رہ گیا تھا۔

جاری ہے
***********

Comments

- Advertisement -