تازہ ترین

علی امین گنڈاپور وفاق سے روابط ختم کر دیں، اسد قیصر

اسلام آباد: رہنما پاکستان تحریک انصاف اسد قیصر نے...

وزیراعظم شہبازشریف کو امریکی صدر جو بائیڈن کا خط، نیک تمناؤں کا اظہار

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن نے وزیر اعظم شہباز...

بابر اعظم کو دوبارہ قومی ٹیم کا کپتان بنانے کا فیصلہ ہو گیا

پاکستان کرکٹ بورڈ نے بابر اعظم کو ایک بار...

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

ایران کا ظالم بادشاہ ضحاک اور درفشِ‌ کاویانی

ایک اور بادشاہ جس نے ایران پر حکومت کی، ضحاک تھا۔ یہ اپنے ظلم و ستم او رخون ریزی کے سبب بدنام ہے۔

کہتے ہیں کہ اس کے دونوں شانوں پر دو سانپ پیدا ہو گئے تھے۔ ان کی غذا کے لیے انسان کا گوشت درکار تھا۔ ضحاک ہر روز انسانوں کو ہلاک کرتا اور سانپوں کے لیے خوراک بہم پہنچاتا تھا۔ مارِ ضحاک سے اسی واقعہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ یہ بادشاہ فریدوں کے ہاتھ سے مارا گیا۔
فریدوں اپنی عظمت و صولت کے سبب مشہور ہے۔ جب شاعر کسی بادشاہ کی تعریف کرتے ہیں تو اس کو فریدوں فر کہا کرتے ہیں۔

ضحاک کے عہدِ حکومت میں ایک لُہار تھا جس کا نام کاوہ تھا۔ یہ لُہار اصفہان کا باشندہ تھا۔ اس کے چار بچّے ضحاک نے مروا ڈالے تھے۔ خلقت ضحاک کے جور و ستم سے عاجز آ گئی تھی۔ کاوہ کے دل میں ان واقعات کو دیکھ کر جوش پیدا ہوا۔ اس نے دکان بند کر دی۔ جس چمڑے کو وہ اہرن کے نیچے بچھایا کرتا تھا، اس کو ایک لکڑی پر آویزاں کر کے پھریرا (جھنڈا) بنایا اور ڈھول بجاتا ضحاک کے ظلم کے راگ گاتا نکل کھڑا ہوا۔ درفشِ کاویانی، علَم کاویانی، پرچم کاویانی، اختر کاویانی کے الفاظ سے بھی یہی جھنڈا مراد ہے۔

ایران کے باشندے جو ضحاک کے ظلم و ستم سے تنگ آ گئے تھے، اس جھنڈے کے نیچے جمع ہو گئے۔ کاوہ اس لشکر کو اپنے ساتھ لے کر بڑھا۔ ضحاک کی فوجوں سے اس کی ٹکر ہوئی۔ ان فوجوں نے شکست کھائی، یہاں تک کہ تمام ایران کو کاوہ نے فتح کر لیا۔ اس نے بذاتِ خود سلطنت کرنے سے انکار کیا۔ فریدوں جو جمشید کا بیٹا تھا اور جس کا باپ ضحاک کے ہاتھ سے قتل ہوا تھا، تختِ ایران پر بٹھایا گیا۔ تمام لڑائیوں میں درفش کاویانی فوج کے آگے آگے رہتا تھا۔ پے درپے فتوحات نے یہ بات ذہن نشین کر دی کہ یہ جھنڈا بہت مبارک ہے۔

کاوہ کے مرنے کے بعد فریدوں نے اور فریدوں کے بعد ایران کے دیگر بادشاہوں نے اس جھنڈے کو جواہرات سے مرصع کیا۔ یزد جُرد کے زمانہ تک یہ جھنڈا ہر لڑائی میں فوج کے آگے آگے چلتا تھا۔ حضرت عمر کے زمانے میں یہ جھنڈا مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔ اس کے جواہرات تقسیم کر دیے گئے اور چمڑا جلا کر خاکستر کر دیا گیا۔

(سیّد وحید الدّین سلیم کے مضمون سے ایک پارہ، جس میں انھوں نے اردو ادب میں تلمیحات کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے قدیم تاریخ سے واقعہ بیان کیا ہے، قدیم فارسی میں درفش کا لفظ جھنڈے کے لیے برتا جاتا تھا)

Comments

- Advertisement -