جزیرہ نما عرب قدیم تہذیبوں کا مرکز رہا ہے اور مختلف ادوار میں کھدائی کے دوران ماہرین نے ان تہذیبوں کے آثار اور وہ اشیا برآمد کی ہیں، جو کبھی جیتے جاگتے انسانوں کے زیرِ استعمال رہی ہوں گی۔ یہ قدیم آثار اور اشیا اس سماج، لوگوں کے رہن سہن اور ان کی ثقافت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔
حال ہی میں ماہرین نے جزیرہ نما عرب میں قدیم تہذیبوں کی 13 سے زائد عربی رسم الخط کی نقش عبارتیں دریافت کی ہیں۔
اس حوالے سے ڈاکٹر سلیمان الدیاب کا کہنا ہے کہ ‘ان میں زیادہ مشہور وہ تحریریں ہیں جو پہاڑوں میں چٹانوں پر نقش ہیں۔’
ڈاکٹر سلیمان الدیاب قدیم عربی رسم الخط کے پروفیسر اور کنگ فیصل ریسرچ سینٹر میں کلچرل کنسلٹنٹ کی حیثیت سے کام کرتے ہیں اور عرب نیوز سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’سب سے پرانی تحاریر ثمود کے نقوش ہیں جن کے بارے میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ تقریباً 1200 قبل مسیح کے ہیں۔‘
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق ’ہم نے ثمود کی سیاسی تحاریر کے نقوش نہیں دیکھے، زیادہ تر سماجی معاملات سے متعلق ہیں اور قدیم ثمودی اور عرب شخصیات کے خیالات کی نمائندگی کرتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ نقوش زیادہ تر صحراؤں، تجارتی راستوں اور العلا، نجران، تیمہ و الجوف کے شہروں میں ہیں جو اُس وقت مملکت کے اہم شہر تھے۔’
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق اس کے بعد آرامی نقوش زیادہ ملتے ہیں جو قدیم مملکت دادان کے صدر مقام العلا شہر میں ہیں۔ یہ ایک ہزار قبل مسیح کے ہیں۔
انھوں نے بتایا کہ ‘تحریروں کے سب سے نمایاں نقوش عرب کے شمال مغرب و جنوب مغرب میں حیل کے علاقے میں پائے گئے۔ یہ قدیم تاریخ میں ایک مشہور ترین مقام ہے جو یونیسکو کے ثقافتی ورثے میں بھی شامل ہے۔’
نقوش کی صورت میں برآمد ہونے والی یہ عبارتیں عبرانی، یونانی اور قدیم مصری زبانوں میں ہیں۔
ڈاکٹر سلیمان کے مطابق اس پر کئی ملکی و غیر ملکی ماہرینِ آثار نے کام کیا ہے جن میں جرمن، فرانسیسی، برطانوی، امریکی اور کینیڈین شامل ہیں۔