انیس ناگی کا نام علمی و ادبی حلقوں میں شاعر، فکشن نگار، نقّاد، مترجم اور مدرس ہر اعتبار سے امتیازی حیثیت رکھتا ہے۔ ’زوال‘ اور ’دیوار کے پیچھے‘ ان کے دو اہم ناول ہیں جب کہ پاکستانی ادب کی مختصر تاریخ بھی انھوں نے لکھی تھی جو لائقِ مطالعہ ہے۔
ڈاکٹر انیس ناگی 7 اکتوبر 2010ء کو پنجاب پبلک لائبریری میں لیکچر دے رہے تھے جس کے دوران انھیں دل کا دورہ پڑا اور وہ زندگی سے محروم ہوگئے۔ انھیں لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔
لاہور میں 10 ستمبر 1939ء کو آنکھ کھولنے والے انیس ناگی کا خاندانی نام یعقوب علی تھا۔ سینٹرل ماڈل اسکول لاہور اور گورنمنٹ کالج لاہور سے تعلیم مکمل کی۔ اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کرنے کے بعد وہ تدریس سے وابستہ ہوئے۔ گورنمنٹ کالج لاہور اور گورنمنٹ کالج فیصل آباد میں پڑھاتے ہوئے مقابلے کا امتحان پاس کیا مگر پھر تدریس ہی کو اپنائے رکھا۔
ان کا تخلیقی سفر تو پہلے ہی شروع ہوچکا تھا، مگر مختلف ادبی جریدوں کی ادارت کے ساتھ وہ ان تخلیق کاروں میں شامل تھے جنھوں نے 1960ء کی دہائی میں نئی شاعری کی تحریک میں سرگرمی سے حصہ لیا۔ انیس ناگی سمجھتے تھے کہ رائج شاعری کا روایتی پیرایہ ناقابل قبول ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنی تخلیقات میں بھی بکثرت نامانوس اور وہ الفاظ استعمال کیے ہیں جنھیں ممنوع کہا جاسکتا ہے یا اس دور میں روایت پسند شاعر اور ادب ان سے گریز کرتے تھے۔
انیس ناگی کے مزاج میں سختی یا ان کی کڑی تنقید اور دوسروں کی ستائش آسانی سے نہ کرنے کی عادت نے ادب کے مختلف گروہوں کو ان سے ناراض کردیا تھا۔ اس کی مختلف وجوہ بھی تھیں جن میں ان کا نظریۂ ادب اور دوسرا زندگی کے وہ ادوار تھے جن میں انیس ناگی نے تلخی اور کھردرا پن محسوس کیا تھا، وہ اپنے ابتدائی دور کے بارے میں خود لکھتے ہیں۔ "شروع ہی سے میرے اندر ایک نامعلوم سی اداسی اور پیچھے رہنے کا احساس موجزن تھا۔ میں اچھے کپڑے نہ پہن سکتا، میرے پاس کوئی ایسی چیز نہ تھی جس پر اس عمر کے لڑکے فخر کرتے ہیں، اس اعتبار سے میرا بچپن سپاٹ ہے، میرے اندر اپنے لیے ایک طرح کا رحم پیدا ہوتا کہ یہ سب میرے لیے کیوں نہیں ہے، گھر میں میری صورت حال ایک نہ ہونے کی اکائی کی تھی۔”
اپنی تلخ گوئی کو انیس ناگی نے اپنے والد کی دین کہا ہے۔ وہ لکھتے ہیں "خود سری، ضد، اپنی راستی پر بے پایاں یقین، خود پسندی، طبیعت میں بے پناہ غصہ، ایک طرح کی جذباتی سنگ دلی، منہ پھٹ ہونا اور گستاخی میری وراثت میں آئی ہے۔”
انیس ناگی اپنے ذاتی تعلقات کے بارے میں لکھتے ہیں۔
"بچپن میں میرا کوئی دوست نہیں تھا اور اب بھی میرا کوئی دوست نہیں ہے، اس لیے نہیں کہ میں شروع ہی سے خلوت پسند ہوں بلکہ اس لیے کہ میرے حالات غیر معمولی تھے۔ ہماری کوٹھی شہر سے دور ہوتی اس لیے شاز و نادر ہی کوئی ہم جماعت مجھے ملنے آتا۔ یہ زندگی بے رنگ تھی، اس پر میرے باپ کی چھاپ تھی، میں طرح طرح کے منصوبے بناتا کہ گھر سے بھاگ جاؤں (روسی ناولوں کی اثرات) اور کسی دوسرے شہر جا کر کسی فیکٹری میں کام کر لوں۔ میرا بچپن سہارے اور شفقت کے بغیر بسر ہوا۔ اتنی عمر گزرنے اور طرح طرح کے لوگوں کو ملنے کے بعد بھی میں اس نتیجے پر ابھی تک قائم ہوں انسان میں اچھائی بہت کم ہے۔ ہر انسان خود غرض ہوتا ہے اور مجبوری کی حالت میں دوسروں کو قبول کرتا ہے-”
کہتے ہیں کہ وہ لگی لپٹی رکھنے کے عادی نہ تھے۔ انھوں نے جو سچ جانا اور جیسا درست سمجھا، اسے بیان کرنے میں کسی کی ناراضی اور تعلق کو نقصان پہنچنے کی پروا نہ کی۔
انیس ناگی نے ناولوں کے علاوہ شعری اور تنقیدی مضامین کے مجموعے، شعری اور نثری تراجم یادگار چھوڑے۔
’نئی شاعری‘ کی تحریک کے زمانہ میں انیس ناگی اور ان کے ہم خیال اہل قلم نے جو تجربات کیے ان میں انیس ناگی نمایاں ہیں ان کے علاوہ افتخار جالب، محمد سلیم الرحمان، عباس اطہر، زاہد ڈار و دیگر بھی اسی تحریک کے زیر اثر لکھتے رہے۔ تاہم ڈاکٹر انیس ناگی کو اپنے ہم عصروں میں اس لیے امتیاز حاصل ہے کہ وہ تخلیقی کام کے ساتھ ساتھ نظری اور فلسفیانہ اساس بھی فراہم کرتے رہے۔ انیس ناگی کا ایک اہم کام ان کے شعری تراجم ہیں۔ الجزائر کے معروف فلسفی اور ناول نگار البرٹ کامیو کے تراجم ان کا بڑا کام ہے۔ انیس ناگی کامیو کے فلسفہ لایعنیت کے حامی تھے، ان کے نالوں میں کامیو کی تحریروں کی پرچھائیاں ملتی ہیں۔ وہ باغیانہ روش کے حامی تھے اور ہمیشہ ادب میں ایک باغی کی حیثیت سے اپنے آپ کو روشناس کرایا۔
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


