مردان: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی کے طالب علم مشعال خان کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔ قتل کے بعد مشتعل ہجوم پولیس کی موجودگی میں مشعال کی لاش ڈھونڈنے کے لیے گاڑیوں کی تلاشی لیتا رہا۔
مشعال کے قاتلوں کو نوجوان کی جان لینے کے بعد بھی قرار نہ آیا۔ مشعال کے قتل سے متعلق ایک اور ویڈیو منظر عام پر آگئی۔
فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ یونیورسٹی کے مرکزی دروازے پر مشتعل ہجوم باہر جانے والی گاڑیوں میں مشعال کی لا ش تلاش کر رہا ہے۔
گیٹ پر راستے روکے کھڑے افراد کو گاڑیوں کے دروازے اور ڈگی کھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ ذرائع کے مطابق مشتعل طلبہ لاش کو جلانا چاہتے تھے۔
ویڈیو میں بندوقیں تھامے پولیس اہلکاروں کی بڑی تعداد بھی خاموش تماشائی بنی نظر آرہی ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ روز یونیورسٹی کی ایک اور ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جو مشعال کے قتل کے کچھ دیر بعد کی تھی۔
مزید پڑھیں: مشعال کو قتل کرنے کے بعد قاتلوں کی ایک دوسرے کو مبارکباد
ویڈیو میں توہین مذہب کا الزام لگا کر مشعال کی جان لینے والے، قتل کے بعد ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ ملزمان نے با آواز بلند حلف بھی اٹھایا کہ گولی مارنے والے کا نام کوئی نہیں لے گا۔
یاد رہے کہ 13 اپریل کو صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر مردان کی عبدالولی یونیورسٹی میں ایک مشتعل ہجوم نے طالب علم مشعال خان کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنا کر اسے موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔
مشعال پر توہین رسالت کا الزام لگایا گیا تاہم چند روز بعد انسپکٹر جنرل خیبر پختونخوا صلاح الدین محسود نے بتایا کہ مشعال کے خلاف توہین رسالت سے متعلق کوئی شواہد نہیں ملے۔
مزید پڑھیں: توہین مذہب کا الزام عائد کرنے والوں کو تعلیم کی ضرورت ہے، امام کعبہ
بعد ازاں کیس کے مرکزی ملزم وجاہت نے اپنے جرم کا اعتراف کرتے ہوئے واقعے کی تمام تر ذمہ داری یونیورسٹی پر ڈال دی تھی۔ ملزم کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے لیے جامعہ کی انتظامیہ نے کہا تھا۔
ملزم کے مطابق انتظامیہ نے اسے کہا کہ مشعال اور ساتھیوں نے توہین رسالت کی ہے جس پر ملزم نے یونیورسٹی انتظامیہ کے کہنے پر طالب علموں کے سامنے مشعال اور ساتھیوں کے خلاف تقریر کی، تقریر میں کہا کہ ہم نے مشعال، عبداللہ اور زبیر کو توہین کرتے سنا ہے۔
گذشتہ روز قومی اسمبلی میں بھی مشعال خان کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی ہے۔
آج صبح سپریم کورٹ میں مشعال خان کے قتل کی ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران عدالت نے پشاور ہائیکورٹ کو جوڈیشل کمیشن بنانے سے روک دیا۔ آئی جی خیبر پختونخواہ نے مکمل رپورٹ مرتب کرنے کے لیے مزید مہلت مانگ لی۔