تازہ ترین

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

بھارت: 30 سال تک فوج میں کام کرنے والا مسلمان فوجی افسر غدار قرار، اہل خانہ سمیت گرفتار

نئی دہلی: بھارتی فوج نے گارگل جنگ میں حصہ لینے والے سابق فوجی افسر کو غیر ملکی قرار دیتے ہوئے انہیں گرفتار کر کے حراستی مرکز منتقل کردیا۔

بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق تیس سالوں تک بھارتی فوج کے لیے خدمات انجام دینے والے افسر محمد ثنا اللہ کو ٹریبونل نے غیر ملکی قرار دیتے ہوئے انہیں حراستی مرکز منتقل کردیا۔ بھارتی شہر کام روپ ضلع کے بوکو پولیس اسٹیشن کی حدود میں واقع گاؤں کولوہیکاش کے رہائشی محمد ثناء اللہ کو غیرملکی قرار دیے جانے کے بعد انہیں اہل خانہ سمیت حراستی مرکز منتقل کر کے نظر بند کردیا گیا۔

ٹریبونل کی جانب سے جاری ہونے والے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ ثناء اللہ 25 مارچ 1971 سے قبل اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت دیں اور یہ بھی شواہد فراہم کریں کہ وہ بھارت کے کس علاقے میں پیدا ہوئے؟۔

بھارتی میڈیا رپورٹ کے مطابق ثناء اللہ 52 سال کی عمر میں اگست 2017 میں فوج کے الیکٹرانکس اینڈ میکینکل انجینئر (ای ایم ای) کور میں صوبے کے عہدے سے مستعفیٰ ہوئے تھے۔ انہوں نے ٹریبونل کو دیے گئے بیان میں کہا تھا کہ وہ جموں کشمیر اور بھارت کے شمال مشرق حساس علاقوں میں تعینات رہے، رہائش منتقلی کی وجہ سے اُن کے پاس پیدائشی سرٹیفکٹ نہیں ہیں۔

پولیس افسر سنجیب سیکیہ نے سابق فوجی افسر کو حراست میں لینے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’’ٹریبونل کے فیصلے کی روشنی میں ہم نے انہیں حراست میں لیا اور اب وہ حراستی مرکز میں ہی رہیں گے‘‘۔

مزید پڑھیں: بھارتی انتخابات: لوک سبھا میں مسلمانوں کی نمائندگی کم ہوگئی

انہوں نے بتایا کہ قانونی فیصلے پر عملدرآمد کے لیے پولیس نے طریقہ کار کے تحت کارروائی کر کے ثناء اللہ کو اہل خانہ سمیت گولپاڑہ کے حراستی مرکز منتقل کیا۔

سابق فوجی افسر کے وکلاء اور اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ثناء اللہ ہندوستانی شہری ہیں اور اُن کے آباؤ اجداد کی دوستاویزات ٹریبونل کو پیش کردی گئیں تھیں جس میں اُن کے بھارتی ہونے کے واضح ثبوت ہیں۔ وکیل کا کہنا تھا کہ ‘ثناءاللہ نے ٹریبونل میں اپنا حلف نامہ بھی جمع کرایا جس میں بتایا گیا ہے کہ وہ 1987 میں فوج میں بھرتی ہوئے تھے۔ زبانی طور پر بھی انہوں نے تفتیش کے دوران فوج میں بھرتی ہونے کا سال 1987 بتایا لیکن ٹریبونل کے افسروں کے ذریعے وہ غلطی سے 1978 ریکارڈ ہو گیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہم نے اس وقت اس کی مخالفت نہیں کی کیونکہ کورے کاغذ پر ان کے دستخط لئے گئے تھے۔

غیر ملکی خبررساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے سزایافتہ سابق پولیس افسر نے کہا کہ ٹریبونل کے فیصلے سے اُن کا دل ٹوٹ گیا کیونکہ انہوں نے ایمانداری کے ساتھ ملک کی خدمت کی جس کے بدلے میں انہیں غدار کہہ کر گرفتار کیا گیا۔

ثناءاللہ نے کیمپ میں جانے سے پہلے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’میں ہندوستانی شہری ہوں جس کی تمام قانونی دستاویزات میرے پاس موجود ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ انہوں نے ملک کی فوج میں 30 سالوں (1987-2017) تک انجینئرنگ محکمے کے ایک افسر کے طور پر خدمات انجام دیں  اور 2014 میں صدر جمہوریہ ایوارڈ  سے نوازا کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: انتخابات میں شکست، گانگریس میں شدید بحران، راہول گاندھی استعفے کے اعلان پر ڈٹ‌گئے

ثناء اللہ کی بیٹی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کے والد نے عدالت کو اپنی ہندوستانی شہریت ثابت کرنے کے لئے تمام ضروری دستاویز پیش کیے، جس میں رائےدہندگان کارڈ اور آبائی جائیداد کے دستاویز شامل تھے۔ سابق فوجی افسر کے اہل خانہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ ٹریبونل کے فیصلے کو ہائی کورٹ میں چلینج کریں گے۔

Comments

- Advertisement -