تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

"انفرادی ہوش مندی” جمہوریت کے دفاع کا بہترین طریقہ!

ایک افلاس زدہ اقلیت سیاسی لحاظ سے بے بس ہوتی ہے۔ اس کے برخلاف ایک نچلا متوسط طبقہ جو حکومت کے سرمایہ دار اور مزدور دھڑوں کے درمیان پس رہا ہو خود کو منظّم کرنے کا اہل ہوتا ہے اور مراعات یافتہ طبقوں کے خلاف کھڑا ہو سکتا ہے۔

یہ سرکش نچلا درمیانی طبقہ وہ دھماکہ خیز سماجی قوّت تھی جو ہٹلر کو 1930ء میں جرمنی میں برسرِ اقتدار لائی۔ چوں کہ کوئی ان کی مدد پر آمادہ نہیں تھا، لہٰذا وہ اپنی مدد آپ کے تحت نیشنل سوشلسٹ پارٹی میں منظّم ہو کر حکومت پر قابض ہو گئے۔ میں اس سے اتفاق کرتا ہوں کہ ہٹلر محض اپنی شعلہ بیانی پر مبنی ذہانت سے جرمنی کا آمر نہیں بن سکتا تھا تا وقتیکہ جرمنی میں ایک غیر مطمئن طبقہ موجود نہ ہوتا جسے ہٹلر اپنی قیادت قبول کرنے کے عوض داد رسی کی پیش کش کر سکے۔

اس وقت کے جرمن نژاد لوگوں نے اپنی مسلّمہ مشکلات کے حل کی توقع میں بہت عجلت کے ساتھ خود کو نازی پارٹی کے حوالے کر دیا۔ بہر کیف وہ یہ محسوس کرنے سے قاصر رہے کہ پارٹی جو طریقۂ کار اختیار کر رہی ہے، وہ دوسروں کے لیے کہیں زیادہ مصائب کا موجب ہوں گے۔ اپنی مشکلات سے گھبرا کر اور یہ محسوس کیے بغیر کہ نازی کیا نقصان پہنچا سکتے ہیں جرمن لوگ فطری طور پر اس پیش گوئی سے قاصر تھے کہ وہ جن لوگوں کو ایذا پہنچا رہے تھے ایک دن ان کے خلاف بے پناہ قوّت کے ساتھ صف آرا ہو جائیں گے۔

یہ کور چشمی جرمنی کی قوی امیدوں کی محرومی اور اس کی اپنی تباہی کا باعث بنی۔ بڑے دکھ کے ساتھ ہمیں یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ یہ انسانی فطرت ہے کہ وہ اپنی تکلیف کی حد تک انتہائی حساس ہوتا ہے اور دوسروں کے مصائب پر غیر معمولی بے حسی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اس کے باوجود بقائے آزادی کے لیے ہر فرد میں یہ ذہنی صلاحیت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے نظام کی سیاسی حکمتِ عملی سے دوسروں کی زندگی اور فلاح پر ہونے والے اثرات کا اندازہ کر سکے۔

میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ ضمانت حاصل کرنے کے لیے کہ سارے انسان ایسی صلاحیت رکھتے ہیں، واحد طریقہ یہ ہے کہ انہیں محبت اور احترامِ انسانیت پر مبنی ایک صحّت مندانہ فلسفہ فراہم کیا جائے۔ ایسا فلسفہ انفرادی دانش کے فروغ میں مددگار ہو گا اور صرف دانش ہی فسطائیت کے ظہور کو روک سکتی ہے۔

مجھے یقین ہے کہ جمہوریت کے تحفظ کے لیے ہر فرد میں یہ ذہانت ہونی چاہیے کہ وہ اپنے گرد و پیش ہونے والی ہر بات کی اصلیت کا وقتِ نظر سے جائزہ لے سکے۔ انفرادی ہوش مندی فسطائیت کے فروغ کے خلاف جمہوریت کے دفاع کا بہترین طریقہ ہے۔

(عظیم تاریخ دان اور فلسفی ٹوئن بی کی گفتگو سے اقتباس جس کا اردو ترجمہ منظور احمد نے کیا ہے)

Comments

- Advertisement -