مشتاق ریئسائی بھی اپنی انتہائی سادگی کی وجہ سے پکڑے گئے۔ اگر وہ یہ ڈالرز پاونڈزاور سونا رکھنے کی بجائے اس سے دبئی میں پراپرٹی خرید لیتے تو اُن کا نام اُن پانچ ہزاریا چھ ہزار معززین میں آتا جو پاکستان سے اربوں روپے نکال کرلے گئے مگر نیب ، ایف بی آر اور ایف آئی اے اُن سے سوال تک بھی نہ کر سکا۔
بلوچستان صرف ترقی کی وجہ سے ہی پسماندہ نہیں۔ہمارے بلوچ بھائی انتہائی سادہ ہیں اور اگر باقی پاکستان کی طرح بلکہ پاکستان کی اشرافیہ کی طرح آف شور کمپنیاں بناتے اور ان آف شور کمپنیوں کے اکاؤنٹ میں جتنا مرضی پیسہ رکھتے، چاہیے پاؤنڈ، چاہے ڈالر، کوئی اُن سے سوال بھی نہ کرتا۔ نہ صرف یہ ، بلکہ اگر کوئی سوال بھی اُٹھاتا تو بڑے فخر سے مشتاق ریئسائی یہ جواب دے سکتے تھے کہ آف شور کمپنی بنانا کوئی غیر قانونی کام نہیں۔ مشتاق ریئسائی کے پاس بھی اگر آف شور اکاؤنٹ ہوتا تو کہہ سکتے تھےکہ ثابت کرو یہ میری کمپنی ہے اور یہ کرپشن کا پیسہ ہے۔ مگر ہمارے بلوچ بھائی بھی کتنے سادہ ہیں۔ اُنھوں نے اسلام آبادمیں بیٹھے اپنے ساتھیوں سے کچھ نہیں سیکھا جہاں سیاستدان ، بیورو کریٹ ، جج اور جرنیل سب ہی بہتی گنگا میں ہاتھ دھوتے ہیں اور سب کا دامن بھی صاف رہتا ہے۔ اگر مشتاق ریئسائی کی دبئی میں اربوں کی جائیداد کی تفصیل آجاتی تو کوئی اُن کوہتھکڑی تو کیا لگاتاایف آئی اے اور نیب یہ سوال کرنے کی جرات بھی نہ کرتا اور اگر کوئی افسر میں یہ گستاخی کرنے کا سوچتا بھی تو اُس کو چپ کرادیا جاتا۔
جیسے اُن ہزاروں پاکستانیوں سے سوال کرنے سے روک دیا گیا کہ جو پاکستان سے اربوں روپے نکال کر لے گئے اور متحدہ عرب امارات ساؤتھ افریقہ، برطانیہ، ترکی، آسٹریلیا او ر امریکہ میں مہنگی ترین جائیداد کے مالک بن گے۔
جس طرح مشتاق ریئسائی کے گھر سے ڈالرز، پاؤنڈ اور سونا برآمد کیا گیا اُس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابھی بلوچستان کرپشن کے حوالے سے بھی اُس پسماندگی کا شکارہے جو باقی شعبوں میں نظر آتی ہے۔ہمارے بلوچ بھائیوں نے شاید ابھی وہ گُر نہیں سیکھے جسے وہائٹ کالر کرائم کہتے ہیں اگر وہ اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں سے یہ گُر سیکھ جاتے تو آج بلوچستان اسمبلی میں استعفوں کی بات نہ گونجتی بلکہ حکمران جماعت اور اس کے اتحادی اور اپوزیشن سے سبق سیکھ کر ٹی او آرز کے نام پر قوم کو ٹرک کی لال بتی کے پیچھے لگا دیتے۔ اور کچھ عرصے بعد سب کو کلین چٹ مل جاتی۔ مگر افسوس، بلوچستان کے ساتھ ذیادتی ہے۔کروڑوں روپے کی کرپشن والے کو ہتھکڑی اور اربوں روپے لوٹنے والوں کو تمام ادارے سیلوٹ کرتے ہیں کیونکہ وہ بلوچستان سے نہیں بلکہ اسلام آباد کے حکمران ہیں۔
نیب نے سیکرٹری خزانہ بلوچستان مشتاق احمد رئیسانی کو گرفتارکرلیا
شاید بلوچ بھائیوں کووہ گُر بھی نہیں آتے کہ اربوں روپے کی کرپشن کرنے کے بعد آپ پکڑے بھی نہ جائیں اور معزز بھی ٹھیریں۔ صرف یہ ہی نہیں بجائے اس کہ آپ کو ہتھکڑی لگے آپ اتنی کرپشن کر لیں کہ قانون کے رکھوالے آپ پر ہاتھ ڈالنے سے پہلے سوچیں کہ مجھے اس شخص کو ہتھکڑی نہیں لگانی بلکہ سیلوٹ کرنا ہے۔
مثال کے طور پر پانامہ پیپرز آنے کے بعد جب یہ ا نکشاف ہوا کہ پاکستانی اشرافیہ کا پیسہ آف شوراکاونٹ میں ہے تو کوئی ٹس سے مس بھی نہ ہوا۔حکومت اور اپوزیشن دونوں مصروف ہیں کہ اس معاملے کو طول دیا جائے۔
حکومت نے اپنے اتحادیوں کے ساتھ بیٹھ کر جو حکمت عملی وضح کی ہے اُس کے مطابق اس معاملے کو لمبا کھینچا جائے گا۔ اپوزیشن لیڈر کے خط اور ٹی اے آرز کے جواب میں ایک اور خط واپس بھیجا جائے گا اور اپوزیشن کے ٹی او آرزکو مسترد کر دیا جائے گا۔
حکومت اور اس کے اتحادی یہ جواز دیں گے کہ متحدہ اپوزیشن کے ٹی او آرز آئینی اور غیر قانونی ہیں جو صرف اور صرف بدنیتی پر مبنی ہیں۔ جمہوری روایات کے عین مطابق اس خط کا جواب حکومت کے اتحادی دیں گے اور اپوزیشن کو لعن طعن بھی کریں گے کہ وہ جمہوریت اور منتخب وزیراعظم کے خلاف سازش میں ملوث ہیں اس دوران مولانا فضل الرحمن اور محموراچکزئی حکومت کے فرنٹ لائین مجاہد ہونگے اور ان کی پوری کوشش ہوگی کہ متحدہ اپوزیشن کو خط و خطابت میں مصروف رکھا جائے اور یہ سب کچھ جمہوریت کے نام پر ہو گا۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں کرپشن کا سوال ہی نہ اُٹھ سکے ۔
ایک ایسی جمہوریت جس میں احتساب کا نام نہ ہو۔ ایک ایسی جمہوریت جس میں دبئی اور دیگر ممالک میں اربوں کی جائیدادوں اور آف شور اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی سوال نہ ہو۔اور اگر سوال کیا جائے تو یہ جمہوریت کے خلاف سازش سمجھی جائے گی۔
اس کھیل میں پیپلز پارٹی کا کردار انتہائی اہم رہے گا کیونکہ وہ حکومت اور اپوزیشن دونوں کو ہی ساتھ لے کر چلنے کی کوشش کر ے گی اور اسی میں نظام کی بقاء کا نعرہ بار بار سنے کو ملے گا۔
وہی نظام جس میں لیڈر ان کے بیرون ملک اثاثوں اور جائیدادوں کے حوالے سے کوئی سوال نہ ہو۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کے نئے اہلکاروں سے حساب نہ مانگا جائے۔
گورا بر صغیر پر حکومت کر کے چلا گیا مگر اپنے پیچھے ایسے کارندے چھوڑ گیا جو اس سے بھی زیادہ چالاکی سے معصوم اور سادہ لوح عوام کو جمہوریت کے نام پر لوٹنے کا عمل جا ری رکھے ہوئے ہیں اور تمام اثاثے اور بزنس برطانیہ میں رکھتے ہیں مگر حکمرانی پاکستان پرکرتے ہیں۔