جمعرات, نومبر 13, 2025
اشتہار

’اُلٹی ہوگئیں سب تدبیریں‘ بھارت اب کیا کرے گا؟

اشتہار

حیرت انگیز

بھارت کے ایشیا کپ 2025 سے متعلق سارے خواب چکنا چور ہو گئے۔ وہ جو ہمیشہ سیاست کو کھیل میں لے آتا ہے، اس نے ایونٹ کو سبوتاژ کرنے اور پاکستان کو نیچا دکھانے کی ہر ممکن کوشش کی، لیکن اب فائنل میں وہ روایتی حریف سے ہی مقابلہ کرے گا۔

ایشیا کپ 2025 اس ایونٹ کا 17 واں ایڈیشن ہے، جس کا میزبان بھارت ہے۔ لیکن وہ اس ٹورنامنٹ کا 41 سالہ تاریخ کا پہلا ایسا میزبان ہے، جس میں پورا ایشیا کپ کسی اور سر زمین یعنی متحدہ عرب امارات میں کھیلا جا رہا ہے۔ بھارت جو ہمیشہ کھیل میں سیاست لاتا اور حریفوں بالخصوص پاکستان کو نیچے دکھانے کی سازشیں کرتا رہتا ہے، لیکن اس بار بھارت کو اپنے غرور کی وجہ سے پاکستان سے ایسی چوٹ ملی کہ اپنے پرائے سب یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’سو سنار کی اور ایک لوہار کی۔‘‘

چیئرمین پی سی بی محسن نقوی نے واقعی ایسا کر دکھایا بھی اور رواں برس فروری مارچ میں پاکستان کی میزبانی میں کھیلی گئی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کھیلنے کے لیے پاکستان نہ آنے کی ضد پر ایسا معاہدہ کیا کہ جو خود بھارت کے گلے آ پڑا۔

Asia Cup 2025- All News and Updates

چیمپئنز ٹرافی کیلیے بھارت کے پاکستان نہ آنے پر پی سی بی بھی اپنے موقف پر سختی سے ڈٹ گیا اور روایتی حریف کو وہ معاہدہ کرنے پر مجبور کیا، جس پر اس وقت تو بڑی لے دے ہوئی، لیکن اب سب پاکستان کرکٹ بورڈ کی بصیرت کو سراہ رہے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت 2027 تک ہونے والے تمام ٹورنامنٹس میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں ایک دوسرے کے ملک میں کرکٹ نہیں کھیلیں گی، بلکہ اپنے اپنے میچز کسی نیوٹرل مقام (جو یو اے ای یا سری لنکا ہو سکتا ہے) میں کھیلیں گی۔ اس معاہدے کی آئی سی سی بھی ضامن بنی۔

اب اس معاہدے کا نقصان پاکستان کو تو نہیں ہونا کہ 2027 تک اس نے کسی بھی بین الاقوامی کرکٹ ایونٹ کی میزبانی نہیں کرنی۔ مگر بھارت کو ایشیا کپ مینز، ویمنز ورلڈ کپ، ٹی 20 ورلڈ کپ مینز کی میزبانی کرنی ہے۔ جس طرح ایشیا کپ مینز متاثر ہوا۔ اسی طرح اگلے برس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ مینز کی رونق بھی متاثر ہوگی۔

کیونکہ پاکستان اپنے میچز سری لنکا میں کھیلے گا اور اگر وہ سیمی فائنل یا فائنل میں پہنچا تو یہ میچز بھی سری لنکا میں ہی کھیلے جائیں گے۔ معاہدے کی رو سے اگر بھارت اس ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچا اور پاکستان کے مدمقابل ہوا تو وہ ایک بار پھر خفت اٹھائے گا اور فائنل کھیلنے سری لنکا آئے گا۔

بھارت جس کو دنیا کا سب سے بڑا امیر کرکٹ بورڈ ہونے کا زعم تھا اور اسی تکبر میں اس نے شاید یہ سوچ کر معاہدہ کیا تھا کہ جب معاہدے پر عملدرآمد کا وقت آئے گا تو وہ اس سے سابقہ معاہدوں کی طرح مُکر جائے گا۔ تاہم یہ بھارت کا کبھی نہ پورا ہونے والا خواب ہی رہا۔

بی سی سی آئی نے ایشیا کپ شروع ہونے سے قبل اس معاہدے کو سبوتاژ کرنے، ایونٹ کے منسوخ کرانے کے لیے اپنے بائیکاٹ تک کا شوشا چھوڑا۔ مودی سرکار نے بھی ہندو انتہا پسندوں کو اس ٹورنامنٹ کو برباد کرنے کے لیے ہوا دی لیکن جیت آخر میں کھیل کی ہوئی اور پاکستان سرخرو رہا۔ اس معاہدے کے تحت ابھی تو بھارت کا پہلا امتحان آیا ہے اور اپنے بچھائے جال میں وہ ایسا پھنسا ہے کہ کرکٹ کی تاریخ میں (باہمی سیریز نہیں) کثیر الملکی ٹورنامنٹ کا ایسا میزبان بن گیا جو پورا ایونٹ ہی کسی غیر سر زمین پر کھیلنے پر مجبور ہے۔

بھارت کا اپنی میزبانی میں ٹورنامنٹ یوں غیر سر زمین پر کھیلنا شاید مودی سرکار، بھارتی کرکٹ بورڈ اور مخصوص ہندو انتہا پسند ذہنیت رکھنے والے بھارتیوں کے لیے کسی ذلت سے کم نہیں ہے۔ جب بھارت سے ٹورنامنٹ کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ بن نہ پڑا تو پھر بھارتی کرکٹ ٹیم کو ایسا دباؤ میں لیا کہ وہ اپنی خفت مٹانے کے لیے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مترادف ایسی اوٹ پٹانگ حرکتیں کر رہی ہے کہ پوری دنیا میں خود بلیو شرٹس اور بھارت کا ہی مذاق بن رہا ہے۔

ایونٹ کے آغاز سے قبل بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو کو پاکستانی کپتان سلمان علی آغا اور اے سی سی کے صدر محسن نقوی سے ہاتھ ملانے کی پاداش میں غدار وطن کا خطاب دے دیا تھا۔ اس سے خوفزدہ ہو کر اور انتہا پسندوں کے سابق بھارتی کرکٹرز کیخلاف واقعات سے سبق سیکھ کر نہ صرف بھارتی کپتان سوریا کمار یادیو بلکہ دیگر کھلاڑیوں نے پاکستان کے خلاف میچز میں حریف کھلاڑیوں سے ہاتھ نہ ملا کر اسپورٹس مین اسپرٹس کو اپنے پیروں تلے ہی روند ڈالا۔

کھیل تو لوگوں کو قریب لاتا اور محبتیں بڑھاتا ہے، لیکن سوریہ کمار یادیو مودی سرکار کے نفرت کے ایجنڈے میں اتنا آگے بڑھے کہ ٹورنامنٹ میں پاکستان کے خلاف اپنی پہلی فتح کے بعد متنازع سیاسی بیان دے دیا اور یہ تک کہہ دیا کہ وہ ایشیا کپ جیتے تو ایشین کرکٹ کونسل کے صدر محسن نقوی سے ٹرافی وصول نہیں کریں گے۔ اس کے ساتھ ہی دوسرے میچ میں فتح کے بعد وہ یہ تکبرانہ بیان بھی دے بیٹھے کہ پاکستان اور بھارت کا اب کوئی نہیں۔ بھارت بہت آگے ہے پاکستان نے دس میں سے ایک ہی میچ جیتا ہوگا باقی سب بھارت نے جیتے۔

یہ بات درست کہ حالیہ دو سالوں میں ایشیا کپ 2023، آئی سی سی ٹی 20 ورلڈ کپ 2024 اور آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی 2025 ٹورنامنٹ میں ناقابل شکست رہتے ہوئے جیتی ہے۔ بہرحال (ہم اس متنازع بحث میں جائے بغیر کہ تینوں ٹورنامنٹ میں بھارتی ٹیم کا کیا ایڈوانٹیج ملے جو دیگر ٹیموں بالخصوص پاکستان کو نہیں دیے گئے) تسلیم کرتے ہیں کہ بھارت کی حالیہ کارکردگی قابل رشک ہے، لیکن سوریہ کمار یادیو کا یہ بیان کہ بھارت کا اب کرکٹ میں پاکستان سے کوئی مقابلہ نہیں وہ بہت آگے نکل چکا ہے، یہ بلاشبہ صریحاً زمینی حقائق کے منافی ہے۔

سوریا کمار یادیو نے شاید کرکٹ کے تمام فارمیٹ کی ریکارڈ بُک نہیں دیکھی، جس میں گرین شرٹس آج بھی ان سے کوسوں آگے ہیں۔ بھارت کو تو صرف حالیہ چند برسوں کی کارکردگی کے باعث صرف ٹی 20 فارمیٹ میں ہی ریکارڈ پاکستان پر سبقت حاصل ہے، لیکن گرین شرٹس کو تو اب بھی بلیو شرٹس پر ون ڈے اور ٹیسٹ کرکٹ (جو کہ اصل کرکٹ ہے) میں جیت کے تناسب سے واضح برتری حاصل ہے۔

تاہم میچ والے دن ویسے ہی کسی بھی ٹیم کی تمام کامیابیاں اور شکست ماضی کا حصہ اور ٹیم پوزیشن صرف آن پیپر ہوتی ہے۔ اس دن جو ٹیم اچھا کھیلتا ہے، وہی میدان سے فاتح بن کر باہر نکلتی اور چیمپئن کا تاج اپنے سر پر سجاتا ہے۔

ہوسکتا ہے کہ جس طرح افغانستان کی ٹیم نے بھارتیوں کی جانب سے ایشیا کی نمبر ٹو ٹیم کا لگایا گیا خودساختہ ٹیگ ایشیا کپ 2025 میں اپنی شکستوں کے ملبے تلے دبا دیا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم جو شاہین کے نام سے بھی جانی ہے۔ اور وہ شاہین کی طرح پلٹ کر جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا اور شکار کرنا اچھی طرح جانتی ہے۔

کسی کو کوئی شک ہے تو وہ 1992 کا ورلڈ کپ، 2009 کا ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ، 2017 کی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کو ذہنوں میں تازہ کر لیں جو اس بات کی گواہ ہیں کہ وہی شہسوار ہے جو میدان میں گرتا ہے۔ اب اتوار 28 اکتوبر کو پاکستان ٹیم کے یہی کھلاڑی اپنی عرفیت ’’شاہین‘‘ کے نام کی طرح ایسا پلٹ کر جھپٹیں گے کہ گھر کے شیروں کو دبئی کے میدان میں ڈھیر کر دیں گے۔ ویسے بھی شاہین عرب دنیا کا پسندیدہ پرندہ ہے۔

یہ تحریر بلاگر/ مضمون نگار کے خیالات اور رائے پر مبنی ہے، جس سے ادارے کا متّفق ہونا ضروری نہیں ہے

اہم ترین

ریحان خان
ریحان خان
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔

مزید خبریں