ایشیا کپ کی 41 سالہ تاریخ میں پاکستان اور بھارت کی ٹیمیں پہلی بار فائنل میچ میں ٹکرا رہی ہیں۔ تاہم دونوں اب تک پانچ بڑے فائنل میں شائقین کرکٹ پاک بھارت ٹاکرا دیکھ چکے ہیں اور ان میں گرین شرٹس کو روایتی حریف پر برتری حاصل ہے۔
پاکستان اور بھارت ایسے روایتی حریف ہیں، جو کھیل کے میدان میں بھی اتریں تو وہاں بھی جنگ کا سماں ہوتا ہے۔ ایک جانب 22 کھلاڑی میدان میں ہتھیاروں کے بغیر گیند اور بلے سے جیت کی جنگ لڑتے ہیں تو دوسری جانب ہزاروں کا مجمع بھی اپنی اپنی ٹیموں کا جوش بڑھانے کے لیے نعرے لگاتے رہتے ہیں۔ تاہم دنیائے کرکٹ کے شائقین اس سے قبل پانچ بار بھی بڑے ٹورنامنٹس کے فائنل میں دونوں ٹیموں کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھ چکے ہیں۔
پاکستان اور بھارت پہلی بار جس بڑے ٹورنامنٹ کے فائنل میں ایک دوسرے کے مدمقابل آئے۔ وہ آسٹریلیا کی سر زمین پر 1985 میں کھیلا گیا ورلڈ چیمپئن شپ آف کرکٹ ٹورنامنٹ تھا۔ ٹورنامنٹ میں اُس وقت کی ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے والی سات ٹیموں نے شرکت کی۔ پاکستان کی قیادت جاوید میانداد کے سپرد تھی، سنیل گواسکر نے بھارتی ٹیم کی کمان سنبھالی ہوئی تھی۔
پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 9 وکٹوں کے نقصان پر 176 رنز بنائے۔ جاوید میانداد 48 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے۔ عمران خان نے 35 رنز کی اننگ کھیلی۔ بھارت کی جانب سے کپل دیو 3 وکٹیں لے کر سب سے کامیاب بولر رہے۔ بھارت نے 177 رنز کا ہدف صرف 2 وکٹوں کے نقصان پر حاصل کر کے 8 وکٹوں سے کامیابی حاصل کی اور سنیل گواسکر نے ٹرافی اٹھائی۔ سری کانت 67 رنز بنا کر ٹاپ اسکورر رہے۔ روی شاستری نے 63 رنز کی ناقابل شکست اننگ کھیلی۔
اس کے ایک سال بعد شارجہ کے میدانوں میں آسٹریلیشیا کپ کھیلا گیا۔ اس ٹورنامنٹ کو آسٹریلیشیا کپ کا نام اس لیے دیا گیا کہ اس میں براعظم آسٹریلیا اور ایشیا کی پانچ کرکٹ ٹیموں پاکستان، بھارت، سری لنکا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے شرکت کی۔ یہ ٹورنامنٹ جاوید میانداد کے تاریخی چھکے کی وجہ سے آج بھی شائقین کرکٹ کے ذہنوں میں محفوظ ہے۔
ناک آؤٹ بنیاد پر کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں پاکستان اور بھارت دوسری بار کسی کثیر الملکی ٹورنامنٹ کے فائنل میں مدمقابل آئیں۔ شارجہ کے میدان میں 18 اپریل کی شدید گرمی میں کھیلے گئے اس فائنل میں موسم سے زیادہ میدان میں جذبات کی تپش تھی۔
پاکستان نے ٹاس جیتا اور بھارت کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی۔ بھارت نے مقررہ 50 اوورز میں 7 وکٹوں کے نقصان پر 245 رنز اسکور کیے۔ جو اُس دور کی کرکٹ میں مشکل ہدف تھا۔ سنیل گواسکر 134 گیندوں پر 92 رنز کی اننگ کھیل کر ٹاپ اسکورر رہے۔ نوجوان وسیم اکرم نے 42 رنز دے کر 3 وکٹیں حاصل کیں۔
قومی ٹیم نے 246 رنز کے ہدف کے تعاقب میں بیٹنگ شروع کی، تو اس کی وکٹیں وقفے وقفے سے گرتی رہیں۔ ایک وقت آیا کہ پاکستان کی 9 وکٹیں گر چکی تھیں اور بھارتی شائقین کو اپنی ٹیم کے ٹورنامنٹ جیتنے کا یقین ہو چلا تھا۔ تاہم وکٹ پر موجود مرد بحران جاوید میانداد سنچری بنا کر موجود تھے۔
پھر آخری اوور اس میچ کے سب سے کامیاب بولر چیتن شرما کو دیا گیا جو تین وکٹیں لے کر پاکستان سے فتح کا تاج تقریباً چھین ہی چکے تھے، تاہم قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔ آخری دو بال رہ گئی تھیں اور اسٹرائیک پر اسپنر توصیف احمد موجود تھے۔ پاکستان کو جیت کے لیے 5 رنز درکار تھے۔ توصیف احمد نے سیکنڈ لاسٹ بال کو کھیل کر تیزی سے ایک رن لیا اس میں وہ رن آؤٹ ہوتے ہوتے بھی بچے۔ اب سامنے اسٹرائیک پر جاوید میانداد 113 گیندوں پر 110 رنز بنا کر موجود تھے۔ چیتن شرما دوڑتے ہوئے آئے اور گیند کرائی۔ اس کے بعد وہ ہوا جو بھارتیوں تو کیا اس وقت پاکستانی شائقین کے ذہنوں میں بھی نہ ہوگا۔ میانداد نے زوردار ہٹ ماری اور گیند تیزی سے ہوا میں اڑتی ہوئی باؤنڈری لائن پار ہی جا کر گری۔
یہ پاکستان کی کرکٹ کے کھیل میں پہلی ٹرافی تھی۔ اس کے بعد شارجہ میں کھیلے گئے ٹورنامنٹس میں قومی ٹیم نے اتنی ٹرافیاں جیتیں کہ پی سی بی کا شوکیس ٹرافیوں سے بھر گیا۔ تاہم کرکٹ کی تاریخ کے سب سے سنسنی خیز میچز میں شمار کیا جانے والا یہ میچ جیت کر میانداد اور توصیف احمد نے ڈریسنگ روم کی طرف فتح کی خوشی کے ساتھ دوڑ لگائی۔ اس وقت ہر پاکستانی کرکٹر کے ساتھ پوری قوم کا چہرہ بھی منور تھا۔ اور عمران خان نے ٹرافی اٹھا کر پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کر دیا۔
اس کے بعد روایتی حریفوں کو کثیر الملکی فائنل کھیلنے میں 8 سال کا طویل عرصہ لگا۔ 1994 میں کھیلے گئے آسٹریلیشیا کپ میں پاکستان اور بھارت ایک بار پھر فائنل میچ میں مدمقابل تھے۔ شارجہ میں کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں بھارت نے ٹاس جیتا اور پاکستان کو پہلے بیٹنگ کی دعوت دی، لیکن وہ اس میچ میں صرف ٹاس ہی جیت سکا۔
گرین شرٹس نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 50 اوورز میں 6 وکٹوں کے نقصان پر 250 رنز اسکور کیے۔ عامر سہیل نے 69 اور باسط علی 57 رنز کے ساتھ نصف سنچریاں اسکور کیں۔ سعید انور نے بھی 47 رنز کی اننگ کھیلی۔ بھارت کی جانب سے چوہان اور سری ناتھ نے تین 3 کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا۔
بھارت کی ٹیم پورے 50 اوورز بھی نہ کھیل سکی اور 47.4 اوورز میں 211 رنز پر ڈھیر ہو گئی۔ عامر سہیل نے بیٹ کے بعد بولنگ سے بھی کمال دکھایا اور دو وکٹیں حاصل کیں۔ عامر سہیل کو آل راؤنڈ کارکردگی پر میچ کا بہترین کھلاڑی قرار دیا اور سلیم ملک نے آسٹریلیشیا کپ کی ٹرافی اٹھائی۔
اس کے بعد روایتی حریف 13 سال کے طویل عرصہ بعد 2007 کے اوّلین ٹی 20 ورلڈ کپ میں فائنل میں سامنے آئے۔ دونوں ٹیموں کی قیادت نوجوانوں کے سپرد تھی۔ ایم ایس دھونی اور شعیب ملک بالترتیب بلیو اور گرین شرٹس کی کمان سنبھالے ہوئے تھے۔
جنوبی افریقہ کی سر زمین پر کھیلے گئے اس ٹورنامنٹ میں مجموعی طور پر 12 ٹیموں نے شرکت کی۔ فائنل میں پاک بھارت ٹاکرا سنسنی خیز ثابت ہوا اور پاکستان جیتا ہوا میچ ہار گیا۔ بھارت نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے مقررہ 20 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 157 رنز بنا کر پاکستان کو جیت کے لیے 158 رنز کا ٹارگٹ دیا۔
پاکستان ہدف کے تعاقب میں آخری اوور میں 9 وکٹیں گنوا کر ہدف سے صرف 6 رنز دور رہ گیا تھا۔ اس موقع پر اپنا پہلا آئی سی سی ٹورنامنٹ کھیلنے والے مصباح الحق امید کی کرن بن کر موجود تھے۔ کھیل کی چار گیندیں باقی تھیں اور پاکستان کو جیت کے لیے 6 رنز درکار تھے۔ تاہم فائنل اوور کی تیسری گیند پر مصباح الحق غلط شاٹ سلیکشن کے باعث فیلڈر کو کیچ دے بیٹھے اور پاکستان اولین ٹی 20 ٹورنامنٹ جیتنے میں ناکام رہے۔ یوں ٹرافی شعیب ملک کے بجائے ایم ایس دھونی نے اٹھائی۔
پھر 10 سال بعد انگلینڈ میں کھیلی گئی چیمپئنز ٹرافی میں دونوں ٹیمیں ایک بار پھر میدان میں تھیں۔ پاکستان کی قیادت سرفراز احمد کر رہے تھے، جب کہ بھارت کی کمان ایم ایس دھونی نے ہی سنبھالی ہوئی تھی۔ (یہ ٹورنامنٹ اس لیے بھی اہم تھا کہ آئی سی سی نے اس وقت چیمپئنز ٹرافی 2017 کو آخری ایڈیشن قرار دیتے ہوئے اس ٹورنامنٹ کو ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ تاہم سات سال بعد یہ رواں برس پاکستانی کی میزبانی میں کھیلی گئی۔) لارڈز کے کھیلے گئے تاریخی میچ میں پاکستان نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے نوجوان اوپنر فخر زمان کی سنچری، محمد حفیظ اور اظہر علی کی نصف سنچریوں کی بدولت 338 رنز بنائے۔ تاہم بھارت کی بیٹنگ لائن کو دیکھتے ہوئے یہ ہدف غیر معمولی نہیں تھا۔ لیکن محمد عامر نے غیر معمولی بالنگ اسپیل کر کے پہلی بار پاکستان کو یہ ٹورنامنٹ جتوانے میں اپنا بڑا حصہ ڈالا۔
محمد عامر جو اسپاٹ فکسنگ کیس کے بعد دوبارہ کرکٹ میں آئے تھے۔ انہوں نے ناقابل فراموش اسپیل کرتے ہوئے صرف 8 گیندوں پر بیٹنگ کے بے تاج بادشاہ کہلانے والے انہوں نے ویرات کوہلی (0)، روہت شرما (5) اور شیکھر دھون (21) کی وکٹیں اڑا کر بھارت کی مضبوط بیٹنگ لائن پر ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ ریت کی دیوار کی طرح صرف 158 رنز پر ڈھے گئی۔ فخر زمان مین آف دی میچ رہے، اور سرفراز احمد نے لارڈز کے تاریخ میدان میں پاکستان کی پہلی چیمپئنز ٹرافی اٹھائی۔
خیال رہے کہ ان میں 80 کی دہائی اور 90 کی دہائی کے اوائل میں شارجہ میں کھیلے گئے وہ ٹورنامنٹس شامل نہیں ہیں جو زیادہ تر پاکستان نے جیتے اور مسلسل شکستوں سے گھبرا کر بھارت نے شارجہ اسٹیڈیم کا ہی بائیکاٹ کرتے ہوئے طویل عرصہ تک اس اسٹیڈیم میں قدم نہیں رکھا تھا۔
آج پھر ایک بار فائنل میں شائقین کرکٹ پاک بھارت ٹاکرا دیکھنے والے ہیں۔ ٹرافی کون اٹھائے گا اس کا تو میچ کے اختتام پر ہی پتہ چلے گا، لیکن اس بڑے معرکہ سے قبل پوری قوم کی دعائیں گرین شرٹس کے ساتھ ہیں اور ویسے بھی کرکٹ کی تاریخ گواہ ہے کہ جس ٹورنامنٹ میں پاکستان ٹیم لڑکھڑا کر فائنل میں پہنچی، اس میں وہ سرخرو رہی ہے اور شاید اس بار بھی تاریخ دہرائی جانے والی ہے۔
ریحان خان کو کوچہٌ صحافت میں 25 سال ہوچکے ہیں اور ا ن دنوں اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ملکی سیاست، معاشرتی مسائل اور اسپورٹس پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ قارئین اپنی رائے اور تجاویز کے لیے ای میل [email protected] پر بھی رابطہ کر سکتے ہیں۔


