تازہ ترین

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

جزیرہ استولا ۔ پاکستان کی گم گشتہ جنت

گوادر: جزیرہ استولا جسے جزیرہ ہفت تلار یا ’سات پہاڑوں کا جزیرہ‘ بھی کہا جاتا ہے، پاکستان کا ایک غیر آباد جزیرہ ہے۔ صوبہ بلوچستان میں پسنی کے ساحل سے قریب یہ جزیرہ تقریباً 40 کلو میٹر بحیرہ عرب کے اندر واقع پاکستان کا سب سے بڑا سمندری جزیرہ ہے۔

تقریباً 6.7 کلو میٹر طویل اور 2.3 کلو میٹر چوڑے اس جزیرہ کا بلند ترین مقام سطح سمندر سے 75 میٹر ہے۔ یہ جزیرہ پاکستان کے رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کے ضلع گوادر کی تحصیل پسنی کا حصہ ہے۔

اس جزیرے کے غیر آباد ہونے اور یہاں سیاحوں کی آمد ورفت نہ ہونے کی وجہ اس کے سفر کی طوالت ہے۔ کراچی سے 7 گھنٹے تک پسنی کے سفر کے بعد آپ کو ایک موٹر بوٹ کی ضرورت پڑے گی جس میں مزید 3 گھنٹے کا سفر طے کرنے کے بعد آپ استولا پہنچیں گے۔

تاریخ میں اس جزیرہ کا ذکر ایڈمرل نیرکوس کے حوالے سے ملتا ہے جسے 325 قبل مسیح میں سکندر اعظم نے بحیرہ عرب اور خلیج فارس کے ساحلی علاقوں کی کھوج میں روانہ کیا تھا۔

سنہ 1982 میں حکومت پاکستان نے یہاں گیس سے چلنے والا ایک روشنی کا مینار (لائٹ ہاؤس) بحری جہازوں کی رہنمائی کے لیے تعمیر کیا تھا جسے بعد میں سنہ 1987 میں شمسی توانائی کے نظام میں تبدیل کردیا گیا۔

ستمبر سے مئی کے مہینوں کے درمیان ماہی گیر یہاں کیکڑوں اور جھینگوں کے شکار کے لیے آتے ہیں۔

یہاں ایک چھوٹی سی مسجد بھی ہے جسے حضرت خضرؑ سے منسوب کیا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں ہندوؤں کے ایک پرانے مندر کے کھنڈرات کے آثار بھی یہاں موجود ہیں۔

جزیرے پر موجود پہاڑیوں کی ہیئت نہایت عجیب و غریب اور منفرد ہے۔ کچھ پہاڑیوں میں غار بھی ترشے ہوئے موجود ہیں جو قدرتی ہیں۔

بارشوں کے بعد جزیرے پر جا بجا سبزہ اگ آتا ہے۔ بارش کے علاوہ یہاں میٹھے پانی کی فراہمی کا کوئی ذریعہ نہیں لہٰذا سبزہ بھی کچھ عرصے بعد ختم ہوجاتا ہے۔

یہاں پر صرف کیکر ایسا پودا ہے جو ہر قسم کے حالات میں زندہ رہ سکتا ہے اور سارا سال دکھائی دیتا ہے۔

جزیرے کا شفاف نیلا پانی غروب آفتاب کے وقت نہایت خوبصورت دکھائی دیتا ہے۔

سفر کی طوالت کے باوجود کئی لوگ یہاں کی سیر کو آتے ہیں تاہم ان کی تعداد بے حد کم ہے۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -