ریڈیو پاکستان سے اپنے فن کے سفر کا آغاز کرنے والے اطہر شاہ خان کو پاکستان بھر میں جیدی کے نام سے شہرت اور مقبولیت ملی اور ان کا مخصوص حلیہ ان کی پہچان بنا۔ 70 اور 80 کی دہائی میں پاکستان میں مزاح کی دنیا پر گویا ان کا راج تھا۔
جیدی کے روپ میں مزاحیہ اداکاری کے ساتھ اطہر شاہ خان نے ڈراما نگاری اور مزاحیہ شاعری میں بھی نام کمایا۔ انھوں نے دو دہائی کے دوران لگ بھگ سات سو ڈرامے لکھے۔ پی ٹی وی پر ناظرین کی یادوں میں آج بھی انتظار فرمائیے اور با ادب باملاحظہ ہوشیار جیسے ڈرامے محفوظ ہیں جو اسی مزاح نگار کے تحریر کردہ ہیں۔
ایک زمانے میں پی ٹی وی پر مزاحیہ مشاعروں اور خصوصی نشریات میں جیدی کو سننے کے علاوہ قارئین اخبارات میں ان کے قطعات بھی باقاعدگی سے پڑھتے رہے۔ یہاں ہم اطہر شاہ خان جیدی کے چند قطعات آپ کی دل چسپی اور ذوق کی نذر کررہے ہیں۔
رنگ خوشبو گلاب دے مجھ کو
اس دعا میں عجب اثر آیا
میں نے پھولوں کی آرزو کی تھی
آنکھ میں موتیا اتر آیا!!
جیدی کا شوخ لہجہ اس قطعے میں دیکھیے
داخلہ اس نے کالج میں کیا لے لیا
لڑکیوں میں بڑا معتبر ہو گیا
کھڑکیوں سے نظر اس کی ہٹتی نہیں
میرا بیٹا تو بالغ نظر ہو گیا
رات گئے کسی محلّے میں اگر کوئی مشاعرہ ہورہا ہو اور سامعین کی جانب سے شعرا کو داد دی جارہی ہو تو جیدی اسے کچھ اس طرح باندھ لیتے ہیں
شاعروں نے رات بھر بستی میں واویلا کیا
داد کے ہنگامہ سے پورا محلہ ڈر گیا
اک ضعیفہ اپنے بیٹے سے یہ بولی اگلے روز
رات کیسا شور تھا کیا کوئی شاعر مر گیا