تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

اللہ ہی جانے کون بشرہے

فن قوالی کو منفرد انداز بخشنے والے عزیزمیاں قوال کا آج یومِ پیدائش ہے، انہیں اپنے مداحوں سے بچھڑے لگ بھگ دو دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن ان کی قوالیاں آج بھی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہیں۔

بھارت کے شہر دہلی میں17 اپریل 1942 کو پیدا ہونے والے عزیز میاں قوال نے فن قوالی میں اپنے منفرد انداز سے وہ شہرت حاصل کی جو بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتی ہے‘ انہوں نے قوالی میں ایسے ایسے مضمون باندھے جو کسی اور کے حصے میں نہ آسکے‘ اس جدت کے سبب انہیں قوال حلقوں کی جانب سے کڑی تنقید کا بھی سامنا رہا۔

عزیز میاں قوال نے دس سال کی عمر میں قوالی سیکھنا شروع کی اور سولہ سال کی عمر تک قوالی کی تربیت حاصل کرتے رہے‘ انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے اردو اورعربی میں ایم اے کی تعلیم حاصل کی،تصوف اور معارفت کی محفلوں میں وہ اپنا لکھا ہوا کلام ہی پیش کرتے تھے۔

ان کی وجہ شہرت قوالی کے دوران فی البدہیہ اشعار کی آمد ہے‘ وہ پہلے سے تیار قوالی کے ساتھ ساتھ فی البدہیہ اور براہ راست شاعری میں ملکہ رکھتے تھے۔ واحد قوال تھے جو شاعر بھی تھے اور کمپوزر بھی ‘ دوسری جانب تصوف اور معارفت کے منازل سے بھی بخوبی واقف تھے۔

عزیز میاں قوال کی قوالیاں آج بھی دلوں پر وجد طاری کردیتی ہیں ‘ ان کی شاہکار قوالیوں میں – میں شرابی شرابی‘ تیری صورت‘ اللہ ہی جانے کون بشرہے اور دیگر شامل ہیں۔ 115 منٹ طویل قوالی- ’اورحشر کے روز ہی پوچھوں گا‘ انھوں نے خود لکھی‘ خود کمپوز کی اور خود ہی دنیا کے سامنے پیش کی۔

ان کی قوالی سننے والوں پر وجد طاری کر دیتی ہے،اور ایسا سماں بندھ جاتا تھا کہ جس سے سامعین خود کو الگ نہیں کر پاتے تھے، حکومت نے ان کو کئی اعزازات سے نوازا جب کہ شاہ ایران نے بھی انہیں گولڈ میڈل پیش کیا تھا،

منفرد انداز اور لب و لہجے کے مالک عزیزمیاں قوال ایران کے شہر تہران میں 06 دسمبر 2000 کو کچھ عرصے علیل رہنے کے بعدخالقِ حقیقی سے جا ملے۔

Comments

- Advertisement -