تازہ ترین

پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے حوالے سے ترجمان دفتر خارجہ کا اہم بیان

اسلام آباد : پاکستان کے بیلسٹک میزائل پروگرام کے...

ملازمین کے لئے خوشخبری: حکومت نے بڑی مشکل آسان کردی

اسلام آباد: حکومت نے اہم تعیناتیوں کی پالیسی میں...

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

بہادر یار جنگ: بے مثل خطیب، شعلہ بیاں مقرر

حیدر آباد دکن نے جہاں اپنے تاجدار میر عثمان علی خاں (نظام دکن) کی فیاضی و سخاوت، علم دوستی کی وجہ سے ہندوستان کے کونے کونے سے نادر و یگانہ ہستیوں، نابغہ روزگار شخصیات کو اکٹھا کرکے دنیا کو ان کی صلاحیتوں، قابلیت اور ان کی سیاسی، علمی و ادبی کاوشوں سے فیض یاب ہونے کا موقع دیا، وہیں اس سرزمین پر اہلِ علم و عمل، صاحبانِ بصیرت، قول و فکر میں یکتا و پختہ شخصیات نے بھی جنم لیا جن میں‌ ایک نام بہادر یار جنگ کا بھی ہے۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

جدوجہدِ آزادی کے اس نام ور راہ نما، بے مثل خطیب، شعلہ بیاں مقرر اور نہایت قابل شخصیت نے ہندوستان کے مسلمانوں میں‌ وہ تڑپ پیدا کی اور ان میں جذبہ حریت جگایا جس پر انھیں حقیقی محسن اور عظیم راہ نما تسلیم کیا گیا۔

نواب بہادر یار جنگ کا اصل نام محمد بہادر خان تھا۔ 3 فروری 1905 کو حیدرآباد دکن میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اور تربیت نے انھیں غور و فکر کی عادت ڈالی اور وہ ہندوستان میں آزادی اور بالخصوص مسلمانوں کی حالت سدھارنے کے لیے میدان میں اترے۔

بہادر یار جنگ کو شعلہ بیان مقرر کہا جاتا ہے۔ ان کی تقاریر اور جلسوں میں‌ موجودگی اس وقت کے مسلمانوں کے لیے بڑی اہمیت رکھتی تھی۔ لوگ دور دور سے انھیں سننے کے لیے جلسوں میں‌ شرکت کے لیے آتے۔ 1927 میں انھوں نے مجلس تبلیغ اسلام کے نام سے ایک جماعت قائم کی۔ بعدازاں خاکسار تحریک اور مجلس اتحاد المسلمین کے لیے سرگرمیاں انجام دیں۔ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے اہم راہ نمائوں میں شامل تھے اور قائداعظم محمد علی جناح کے قریبی رفقا میں شمار ہوتے تھے۔

مارچ 1940 میں آل انڈیا مسلم لیگ کے جس اجلاس میں قرارداد پاکستان منظور ہوئی اس میں آپ کی تقریر معرکہ آرا تھی۔ آپ کو قائدِ ملت اور لسان الامت کے خطابات سے نوازا گیا۔

ہندوستان کا یہ بے مثال خطیب، آفتابِ علم و عرفاں، باعمل راہ نما اور سیاسی بصیرت رکھنے والا عظیم لیڈر 25 جون 1944 کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوگیا۔ ان کی وفات اس وقت ہوئی جب مسلمانوں کی آزادی کی تحریک تیزی سے اپنی منزل کی طرف بڑھ رہی تھی اور جدوجہدِ آزادی کے متوالوں کو ان کی ضرورت تھی۔ ان کی وفات نے ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے مسلمانوں کو آزردہ کردیا تھا۔

Comments

- Advertisement -