تازہ ترین

آج مرہٹہ پیشوا باجی راؤ نے مغل افواج کو دہلی کے دروازے پر شکست دی تھی

کیا آپ مرہٹہ پیشوا باجی راؤ اول کے نام سے واقف ہیں، آج کے دن انہوں نے جنگِ دہلی میں مغل افواج کو شکست دے کر سلطنت مغلیہ کے زوال کی بنیاد رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

جنگ دہلی میں آج سے 272 سال قبل 28 مارچ 1737کو مرہٹہ سلطنت کے پیشوا باجی راؤ اول نے تل کوترا کے مقام پر مغل افعاج کو شکست دی تھی۔ مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا نے اس جنگ کی کمان میر حسن خان کوکا کے سپرد کی تھی، جنگ میں مغل سلطنت کے حامی نظام حیدر آباد اور بھوپا ل کے نواب بھی شامل تھے۔

اس جنگ میں مغل افواج کو شکست ہوئی جبکہ اسی سلسلے کی جنگ بھوپال میں پیشوا باجی راؤ نے نظام حیدر آباد اور نواب آف بھوپال کو شکست دے کر نہ صرف مالوہ کو اپنی سلطنت میں شامل کیا بلکہ مغلوں سے وسیع علاقہ بھی چھین لیا تھا۔ ان جنگوں کا اختتام تب ہوا جب جنوری 1738 مغل شہنشاہ محمد شاہ رنگیلا کے کمانڈر جے سنگھ نے مرہٹہ سلطنت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں ٹیکس جمع کرنے کا حق دے دیا۔

ہنوز دلی دور است؟؟

صلیبی جنگوں کے فاتح صلاح الدین ایوبی

باجی راؤ اول بلاشبہ ایک زیرک اور بہادر کمانڈر اور سیاست داں تھا جس نے 20 سال کی عمر میں اپنے والد بالاجی وشواناتھ کی وفات کے بعد مرہٹہ حاکم چتراپتی شاہو کی جانب سے عنایت کردہ پیشوا کا منصب سنبھالا۔ اس وقت اسے ریاست کے کئی امیروں اور سپہ سالاروں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا ، تاہم وقت نے چترا پتی شاہو کے فیصلے کو درست ثابت کیا اور باجی راؤ کی  قیادت میں مرہٹہ افواج نے نظام دکن، بھوپال کے نواب اور پھر خود مغل سلطنت کو مرہٹوں کی قوت تسلیم کرنے پر مجبور کردیا تھا۔

ہندوستان کی تاریخ باجی راؤ کو ایک طاقت ور جرنیل کے طور پر یاد کرتی ہے جس نے تلوار کی نوک سے مرہٹہ فتوحات کا باب کھولا تھا، دہلی کی جنگ اور مالوہ کا حصول باجی راؤ کی کامیابیوں کی انتہا تھی ۔28 اپریل 1740 کو مرہٹہ سلطنت کا یہ جرنیل اندور کے قریب ایک جاگیر کے معائنے کے موقع پر شدید بخار کا شکار ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے موت کے منہ چلا گیا۔ اس وقت باجی راؤ کی عمر محض 39 سال تھی اور وہ ایک لاکھ مرہٹوں کا لشکر جرار لے کر دہلی کے تخت سے حتمی جنگ کے لیے راستے میں تھا۔

یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ باجی راؤ کی بے وقت موت نے مرہٹوں کے تیزی سے بڑھتے ہوئے سیل رواں کے سامنے بند باندھا تھا ورنہ شاید 1857 میں انگریزوں کے خلاف جنگ آزادی میں شکست سے ختم ہونے والی مغل سلطنت کا شیرازہ اسی وقت بکھر جاتا۔

باجی راؤ کے بعد چترا پتی شاہو نے اس کے بیٹے بالاجی راؤ کو پیشوا کا منصب محض 19 سال کی عمر میں عطاہوا لیکن وہ اپنے باپ کی طرح ایک بہادر جرنیل کے بجائے سیاست داں ثابت ہوا۔

وہ ملکہ جو شہنشاہ اکبرپرحکومت کرتی تھی

اس کا دور مرہٹہ سلطنت کے عروج کی انتہا تھا۔ اس دور میں چتراپتی شاہو یعنی مرہٹہ سلطنت کے کے حاکم کی حیثیت بس علامتی ہی رہ گئی تھی۔ باجی راؤ نے جو فتوحات کا در کھولا تھا ، مرہٹہ سلطنت اس سے آگے تو نہ بڑھ سکی لیکن مسلسل مغل سلطنت اور ان کے بعد برطانوی راج کے لیے سردرد بنی رہی۔

باجی راؤ نے پہلی شادی کاشی بائی سے کی تھی جن سے ان کے تین بچے تھے ۔ انہوں نے دوسری شادی بنڈیل کھنڈ کی مستانی سے کی ۔ اس شادی سے متعلق افسانوی داستانیں بھی مشہور ہیں ، تاہم حقیقت میں یہ شادی ایک سیاسی معاہد ہ تھی ۔ جب باجی راؤ نےمغل افواج کے خلاف بنڈیل کھنڈ کے حاکموں کی مدد کی تو بدلے میں اسے ایک وسیع و عریض جاگیر دی گئی اورمستانی رشتہ بھی دیا گیا۔

دسمبر 1728ء میں الہ آباد کے مغل سپہ سالار محمد خان بنگش نے بندیل کھنڈ پر حملہ کیا۔ راجا چھترسال نے مدد مانگنے کے لیے باجی راؤ اول کو ایک خط لکھا۔ خط ملنے کے فورا بعد باجی راؤ اپنی فوج کے ساتھ راجا چھترسال کی مدد کے لیے روانہ ہو گیا۔ بنگش کو جنگ میں شکست ہوئی اور اسے گرفتار کر لیا گیا۔

جنگ میں باجی راؤ کی دی گئی امداد سے چھترسال باجی راؤ کے بہت شکر گزار تھے اور اسے اپنے بیٹے کے طور پر ماننے لگے تھے۔ چھترسال نے اپنی بیٹی مستانی اور باجی راؤ کی شادی کی تجویز بھی باجی راؤ کے سامنے رکھی تھی ۔

باجی راؤ نے 20 سال کی عمر میں پیشوا کا منصب سنبھالنے کے بعد کبھی مڑ کر نہیں دیکھا ، اس نے 41 جنگیں لڑیں اور مرہٹہ پرچم کو بلند رکھا۔ اس کی زیادہ تر جنگیں مغل سلطنت سے رہیں ساتھ ہی ساتھ ، دکن کے نظام ، بھوپال کے نواب اور پرتگالیوں کا بھی اس نے مقابلہ کیا اور تاریخ ہندوستان میں مرہٹہ سلطنت کو وہ حیثیت دلوائی جس کے سبب تاریخ میں انہیں قابلِ ذکر مقام ملا۔

Comments

- Advertisement -
فواد رضا
فواد رضا
سید فواد رضا اے آروائی نیوز کی آن لائن ڈیسک پر نیوز ایڈیٹر کے فرائض انجام دے رہے ہیں‘ انہوں نے جامعہ کراچی کے شعبہ تاریخ سے بی ایس کیا ہے اور ملک کی سیاسی اور سماجی صورتحال پرتنقیدی نظر رکھتے ہیں