تازہ ترین

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ گئے

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کے4 منصوبے سے بھی ترستے کراچی کو پانی نہیں مل سکے گا

پانی کو ترستے کراچی کے شہریوں کو کے4 منصوبے...

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی کراچی آمد، مزار قائد پر حاضری

کراچی: پاکستان کے تین روزہ سرکاری دورے پر موجود...

سمندر کے بیچ بنا ہوا ’فنگر پرنٹ‘

زغرب: وسطی اور جنوب مشرقی یورپ کے سنگم پر واقع ملک جمہوریہ کروشیا کے سمندر میں ایک ایسا جزیرہ پایا جاتا ہے جو فضا سے بالکل انسانی فنگر پرنٹ کی مانند دکھائی دیتا ہے۔

بحیرہ ایڈریاٹک (بحیرۂ روم کا ایک بازو) میں ایک چھوٹے سے ویران جزیرے ’بالژیناک‘ کو تصاویر میں دیکھ کر جب لوگوں کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ انسانی انگلی کا نشان نہیں بلکہ ’فنگرپرنٹ جزیرہ‘ ہے، تو وہ حیران رہ جاتے ہیں۔

اپنی اسی شکل کی وجہ سے یہ جزیرہ اپنے اصل نام بالژیناک (Baljenac) کی بجائے ’فنگر پرنٹ جزیرہ‘ کے نام سے مشہور ہے، فضا سے دیکھنے پر یہاں جو نشانات نظر آتے ہیں، وہ دراصل سفید پتھروں سے بنائی گئی چھوٹی چھوٹی دیواریں ہیں جن کی اونچائی بمشکل تین سے چار فٹ ہے۔

ان سفید دیواروں سے متعلق کروشیائی مؤرخین کا کہنا ہے کہ انیسویں صدی میں قریبی ساحل پر رہنے والے لوگوں نے اس جزیرے پر یہ دیواریں بنائی تھیں تاکہ تیز سمندری ہواؤں کی شدت کم کرتے ہوئے یہاں مختلف فصلیں اگائی جا سکیں۔

ایک مفروضہ یہ بھی ہے کہ بالژیناک جزیرے پر یہ دیواریں سلطنتِ عثمانیہ کے فوجی حملوں سے بچاؤ کےلیے بنائی گئی تھیں لیکن اس خیال کی تائید یہاں موجود دوسرے آثارِ قدیمہ سے نہیں ہوتی۔

اس طرح کی دیواریں مختلف یورپی ممالک میں بھی بنائی گئی ہیں لیکن بالژیناک جزیرے پر یہ دیواریں پیچ در پیچ انداز میں اتنی زیادہ ہوگئی ہیں کہ انھوں نے پورے جزیرے کو اپنے گھیرے میں لے لیا، دل چسپ امر یہ ہے اگرچہ اس جزیرے کا رقبہ صرف 0.14 مربع کلومیٹر ہے لیکن یہاں دیواروں کے جال کی مجموعی لمبائی تقریباً 23 کلو میٹر ہے۔

ہر سال یہاں آنے والے سیاحوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے، کروشیائی حکومت نے یونیسکو سے درخواست کی ہے کہ بالژیناک جزیرے کو ’عالمی ورثے‘ میں شامل کیا جائے۔

Comments

- Advertisement -