تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

رنجیت سنگھ کی پوتی جسے لاہور سے عشق اور اپنی ہندوستانی شناخت پر ناز تھا

لاہور کے گورا قبرستان میں ایک مدفن کے سرہانے پر خالصہ راج کا یادگاری نشان نمایاں ہے۔ یہ آخری آرام گاہ شہزادی بمبا سدرلینڈ کی ہے جو 1957ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئی تھیں۔

بمبا سدرلینڈ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی تھیں۔ وہ شاہی خاندان کی آخری فرد تھی جس نے لاہور میں وفات پائی۔ وہ شہر جہاں کبھی ان کے خاندان کا راج تھا اور شہزادی کے والد دلیپ سنگھ کی حکومت تھی۔

رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد 1848ء میں انگریزوں نے پنجاب فتح کرنے کیا تو دلیپ سنگھ جو اس وقت مہاراجہ تھا، اسے ایک معاہدے کے تحت برطانیہ بھیج دیا۔ وہاں اس خاندان کو ملکہ کی سرپرستی حاصل ہوگئی۔ بعدازاں دلیپ سنگھ نے اپنا مذہب تبدیل کر کے عیسائیت قبول کر لی اور برطانوی اشرافیہ کا حصّہ بن گیا، لیکن وہ اپنی شاہ خرچیوں اور کثرتِ شراب نوشی کے سبب برباد ہوگیا اور 1895ء میں پیرس میں وفات پا گیا۔

دلیپ سنگھ کی پہلی بیوی سے چھے بچّے پیدا ہوئے جن میں سے ایک کا نام بمبا صوفیہ جنداں (Bamba Sofia Jindan) تھا۔ 29 ستمبر 1869ء کو لندن میں آنکھ کھولنے والی بمبا نے مشنری اسکول میں تربیت اور تعلیم کے مراحل طے کیے۔وہ اوائلِ عمر سے ہی اپنی شاہی اور ہندوستانی شناخت کے بارے میں‌ سنجیدہ رہی تھی۔ اسے اپنے دادا مہاراجہ رنجیت سنگھ کی سلطنت کے جانے اور اپنے خاندان کی برطانیہ منتقلی کو ذہنی طور پر قبول کرنے میں‌ بڑی مشکل پیش آئی۔

رنجیت سنگھ کا راج شمال مغرب میں درّۂ خیبر سے مشرق میں دریائے ستلج تک اور برصغیر پاک و ہند کی شمالی حد سے جنوب کی طرف صحرائے تھر تک پھیلا ہوا تھا۔ لاہور سلطنت کا صدر مقام تھا۔ اسی مہاراجہ کے بیٹے دلیپ سنگھ کی صاحب زادی شاہزادی بمبا سدرلینڈ نے 88 برس کی عمر میں ضعف اور ناتوانی کے عالم میں‌ دم توڑا۔ فالج سے ان کا جسم متاثر تھا اور بینائی بھی کمزور ہوچکی تھی۔

لندن میں ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد شہزادی بمبا کو آکسفورڈ یونیورسٹی میں داخلہ مل گیا تھا اور بعد میں‌ وہ امریکی شہر شکاگو کے ایک میڈیکل کالج چلی گئی تھیں۔ بیسویں صدی کے آغاز میں شہزادی بمبا نے ہندوستان آنا جانا شروع کیا اور لاہور کے حُسن اور سکھ دور اور شاہی خاندان کی یادگاروں نے انھیں یہیں‌ قیام کرنے پر مجبور کر دیا۔ شہزادی نے انگلستان کو چھوڑ کر لاہور کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنا لیا۔ انھوں نے لاہور میں اپنی رہائش گاہ کو ’گلزار‘ کا نام دیا اور اس میں کئی اقسام کے گلاب کے پودے لگا کر ان کی دیکھ بھال میں‌ مصروف ہوگئیں۔

سنہ 1915 میں شہزادی بمبا نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر ڈیوڈ سدرلینڈ سے شادی کر لی جو 1939 تک زندہ رہے۔ شہزادی بمبا کی شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبال سے بھی ملاقاتیں‌ رہیں جو ان کی بے انتہا عزّت کرتے تھے۔ تقسیمِ ہند کے موقع پر وہ انگلستان، ہندوستان اور دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے کا فیصلہ کرسکتی تھیں جو ان کا حق تھا، لیکن انھوں نے لاہور میں اپنے والد دلیپ سنگھ کی جائیداد اور دیگر معاملات کو سنبھالنے کا فیصلہ کیا۔

شہزادی بمبا کو آرٹ سے گہرا لگاؤ تھا اور ان کے پاس بیش قیمت پینٹگز کا ایک خزانہ موجود تھا جو وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق ان کے خاص ملازم پیر کریم بخش سپرا کو سونپ دیا گیا۔ اس میں واٹر کلر، ہاتھی کے دانتوں پر پینٹنگز، مجسمے اور آرٹ کے دیگر شاہکار شامل تھے۔ لندن میں سکھ خاندان کے نوادرات کو وصیت کے مطابق جب ملازم پیر کریم بخش نے حکومتِ پاکستان کے تعاون سے لاہور منگوانے کی درخواست دی تو اس کا احترام کیا گیا اور ایک ہفتے میں نوادرات لاہور پہنچ گئے۔ بعد میں ان اشیا کو شہزادی بمبا کی رہائش گاہ میں محفوظ کر دیا گیا۔ بعد میں اسے قومی اثاثہ قرار دے کر لاہور کے شاہی قلعے میں محفوظ کیا گیا۔

Comments

- Advertisement -