یگانہ (اردو کے معروف شاعر جو غالب کے بڑے ناقد اور نکتہ چیں رہے ہیں) نے ’’آیاتِ وجدانی‘‘ میں بڑے دل چسپ انداز میں ان معرکہ آرائیوں کا ذکر کیا ہے جس کی وجہ سے ان کی زندگی تلخ تر ہو گئی تھی۔ ان کا مکمل سوشل بائیکاٹ کر دیا گیا تھا اور یہاں تک کہ ان کی روزی بھی چھین لی گئی تھی مگر یگانہ ان سے گھبرانے والے نہ تھے، اس لیے کہ،
دل طوفاں شکن پہلے جو آگے تھا سو اب بھی ہے
بہت طوفان ٹھنڈے پڑ گئے ٹکرا کے ساحل سے
یگانہ پر جو شدید الزامات لگائے جاتے ہیں ان میں سر فہرست یہ الزام ہے کہ وہ غالب کے شدید مخالف تھے۔ یہ الزام صحیح نہیں ہے۔ مجھے ’’غالب شکن‘‘ کے دونوں نسخے پڑھنے کا موقع ملا ہے، پہلا ۱۹۲۷ء اور دوسرا ۱۹۴۵ء میں شائع ہوا تھا۔ اس کے دوسر ے ایڈیشن کے صفحہ ۲۲ پر صاف صاف لکھا ہے کہ وہ غالب پرستی کے مخالف ہیں، غالب کے نہیں۔ اس میں یہ بھی درج ہے کہ یگانہ کے خلاف ۲۱ صفحے ’’ساقی‘‘ میں لکھے گئے تھے۔ یہ قلمی نام ’’دلّی والا‘‘ کے نام سے شائع ہوا تھا اور ’’غالب شکن‘‘ ایک معنی میں اسی کا جواب ہے۔
یہ ایک طویل مقالے کی حیثیت رکھتا ہے جو خط کی صورت میں لکھا گیا تھا۔ اس کے مخاطب پروفیسر مسعود حسین رضوی ادیب صاحب ہیں، جو یگانہ کے بڑے مداح اور بہی خواہ ہیں اور انہیں انتہا پسندی کی صعوبتوں سے بچانے کی کوششیں کیا کرتے تھے۔ میکش اکبر آبادی نے اپنے مضمون میں یہ جملے لکھے ہیں، ’’شاید یہ بات تعجب سے سنی جائے کہ وہ مرزا غالب کو نہ صرف یہ کہ برا نہیں سمجھتے تھے بلکہ ایک بڑا شاعر سمجھتے تھے۔‘‘ (یگانہ کے ساتھ چند لمحے، نقوش نمبر ۶۹۔ ۷۰ صفحہ ۲۳۷)
اس مضمون کے پڑھنے والے پر یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ یگانہ اتنے تنگ مزاج نہیں تھے جتنا کہ ان کے مخالفین نے انہیں مشہور کر دیا تھا اور پھر یگانہ کے مخالفین ایک دو نہیں بے شمار تھے اور ہیں۔ ایک اور بات بھی معلوم ہو جاتی ہے کہ فانی ان سے دوستی بھی رکھنا چاہتے تھے۔ یہ الگ بات ہے کہ فانی کے منوانے والے یگانہ کا ذکر تک کرنا مناسب نہیں سمجھتے جیسے محترمی رشید!
یگانہ کو اس کا علم تھا کہ وہ اپنی’’بے باکی و حق گوئی‘‘ کی وجہ سے بااثر علمی و ادبی حلقے سے الگ کر دیے گئے ہیں۔ اس احساس نے ان میں انا کی وہ جولانی پیدا کر دی تھی جس کے بغیر ان کی شاعری اتنی بااثر، پر وقار، بلند آہنگ اور آتش سیال نہ بنتی (لیکن مجنوں صاحب صرف یاس کے قائل ہیں اور یگانہ کے نہیں۔ وائے تنقیدی بصیرت) جہاں ان کے انتہا پسند رویے نے انہیں زندگی میں قدم قدم پر بے شمار صعوبتوں سے دوچار کرایا، وہاں ان کے آرٹ کو وہ تابناکی بخشی جو اس سے پہلے میر و غالب کے علاوہ کسی اردو غزل گو کو نصیب نہیں ہوئی تھی۔ ’’آتش‘‘ کے بانکپن کا ان کے ابتدائی کلام ’’نشتر یاس‘‘ پر اثر نظر آتا ہے جب وہ آتش کے ہم نوا کہلانا پسند کرتے تھے۔ مگر اس کے بعد کے کلام میں ان کی اپنی آواز خود ابھر چکی تھی اور نشتریت کے ساتھ شیرینی، دبدبے کے ساتھ نغمگی اور وقار کے ساتھ شعری حسن خود ان کا اپنا تھا، جس پر کسی کا حق نہ تھا۔
اگر ان کی تیزی و تندی سے لوگوں کی دل آزاری ہوتی تھی تو اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ وہ اس اخلاق کو بے معنی سمجھتے تھے جس میں مصلحت، صداقت سے بڑی قدر سمجھی جاتی ہو۔ انہوں نے اپنے بڑے بول کے سلسلے میں یہ جملے لکھے تھے، ’’دکھ پہنچانا گناہ کبیرہ سمجھا جاتا ہے مگر عام ذہنی بیماری کی خطرناک حالت میں بڑا بول بول کر ذہنیت عامہ کو صدمہ پہنچانا ہرگز گناہ نہیں ہے۔ یہ ایک کارگر طریقۂ علاج ہے۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے حکیم ہمدانی کا یہ شعر نقل کیا ہے،
گر دل ایں مخزن کین است کہ مردم دارند
ہرکہ یک دل شکند کعبہ آباد کند
(آیات وجدانی ص ۱۹۹)
یگانہ کا کلام پرکھنے کے لیے غزل کا وہ کلاسیکی معیار رکھنا ہوگا جس کی تعمیر حافظ، نظیری اور سعدی نے فارسی میں اور اردو میں میر و غالب نے کی تھی۔ غزل کا ہر شعر معنوی اور صوتی اعتبار سے قدرِ اوّل کہلا سکے۔ جس میں سوز و گداز ہی نہ ہو بلکہ شعری صداقت اثر آفرینی کے ساتھ ہو۔ اس کے ساتھ ہی وہ تفکر بھی ہو جو ذہن کو جلا بخشے اور بصیرت بھی۔ زندگی کے تلخ سے تلخ تجربات شعر میں ڈھل کر وہ آتش سیال بن سکیں جس میں سرشاری ہو، بے خودی نہیں اور سب سے بڑھ کر خیالات، جذبات اور تجربات کا وہ حسین امتزاج بن سکے جس کو اچھی شاعری کا نقطۂ عروج کہتے ہیں۔
یگانہ کے کلام کو اس معیار پر جانچنے کی کوئی بھی کوشش کرے، کیسا ہی معیار لائے، صرف ایک چھوٹی سی شرط ہے کہ شعری ذوق بھی رکھتا ہو۔ اس چھوٹی سی شرط کو ہمارے نقاد اب تک تو بہت کم پورا کر سکے۔ یگانہ نے اپنی شاعری کے بارے میں فراق صاحب کو ایک خط لکھا تھا، ’’آپ یگانہ کی غزل میں معاملات حسن و عشق، معصومی، گم شدگی، سپردگی وغیرہ بھی دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ چند غیر ضروری شرطیں اپنی طرف سے بڑھا کر آپ یگانہ آرٹ کو شاعرانہ عظمت سے گویا خالی باور کرنا چاہتے ہیں۔ آپ دھوکے میں ہیں۔ یاد رکھیے ہر جنس کا آرٹ خود اپنے معیار پر پرکھا جاتا ہے، پرانے معیار پر نہیں۔‘‘
اس خط میں یہ بھی لکھا ہے، ’’شاعری فقط سپاٹ حقیقت نگاری کا نام نہیں ہے بلکہ حقیقت کو شاعرانہ لذّت کے ساتھ بیان کرنے کا نام ہے۔‘‘
اس اقتباس سے صرف یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ یگانہ بڑے ہوش مند شاعر تھے۔ ان کے سامنے اعلیٰ شاعری کے نمونے موجود تھے۔ وہ بڑی شاعری کے لب و لہجہ، موضوع اور قدروں سے واقف تھے۔ جب ہی تو ان کی غزلوں کے بیشتر اشعار میں وہ تند حلاوت پائی جاتی ہے جو ایک بڑے فن کار کی اوّلین پہچان قرار پا چکی ہے۔ ان کا علم یورپ کی درس گاہوں کا مرہون منت نہ تھا۔ انہوں نے اپنے سامنے پھیلی ہوئی آب جو کی طرح، خاموش تند چشموں کی صاف و شفاف اور سرکش دھاروں کی طرح تیز بہتی ہوئی زندگی میں ڈوب کر اس شعری مزاج کی تشکیل کی تھی جس کی بنیاد صرف انسان دوستی ہی پر رکھی جا سکتی ہے۔
ان کے مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ ہوں،
بشرہوں میں، فرشتہ کیوں بنوں، جیسا ہوں اچھا ہوں
بغاوت اپنی فطرت سے نصیبِ دشمناں کیوں ہو
سب ترے سوا کافر آخر اس کا مطلب کیا
سر پھرا دے انساں کا ایسا خبطِ مذہب کیا
اور یہ تو غضب کا شعر ہے،
عجب کیا ہے ہم ایسے گرم رفتاروں کی ٹھوکر سے
زمانے کی بلند و پست کا ہموار ہو جانا
یگانہ نے شدید معاشی اور ذہنی پریشانیوں کے باوجود اپنی شاعری میں سوز عمل کی وہ آگ روشن کر دی ہے کہ تاریک سے تاریک لمحوں میں بھی آدمی کو جینے کا سہارا مل جاتا ہے۔ یہ یقیناً ایک کارنامہ ہے۔
جیسا کہ میں نے عرض کیا ہے کہ یگانہ کے کلام میں طنز کی بجلیاں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہیں۔ وہ کوند کوند کر کبھی پڑھنے والے کے دل کو گرماتی ہیں اور کبھی ہنساتی ہیں۔ بہترین غزل گو شعرا کی ایک صفت یہ بھی سمجھی گئی ہے کہ ان کے اشعار ضرب الامثال سمجھے جاتے ہیں۔ یگانہ کے یہاں کتنے ہی شعر ہیں جو زبان زدخاص و عام ہو چکے ہیں مگر افسوس کہ بہت کم لوگوں کوعلم ہے کہ یہ یگانہ کے شعر ہیں،
کسی کے ہو رہو اچھی نہیں یہ آزادی
کسی کے زلف سے لازم ہے سلسلہ دل کا
عجب کیا وعدہ فردا پس فرداپہ ٹل جائے
کوئی شام اور آ جائے نہ شام بے سحر ہوکر
علم کیا علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
اور اسی طرح کے کتنے شعر ہیں جو مطالعے کے بعد دل میں نشتر کی طرح اتر جاتے ہیں اور اکثر ذہن میں گونجنے لگتے ہیں۔
(نوٹ: 28 ستمبر 1963ء کو بمبئی میں ’شبِ یگانہ‘ منائی گئی تھی جس میں سردار جعفری نے یگانہ سے اپنی ملاقاتوں کا ذکر کیا۔ ظ۔ انصار ی نے یگانہ کو ایک بڑا کاری گر کہا۔ علی وجد نے یگانہ کو اچھا شاعر تسلیم کیا مگران کی شخصیت پر ناجائز اور بے بنیاد الزامات لگائے۔ صرف صدر جلسہ مجروح سلطانپوری نے یگانہ کی عظمت کا کھلے دل سے اعتراف کیا۔ ممتاز نقاد اور شاعر باقر مہدی نے یہ مضمون اسی جلسے میں پڑھا تھا۔ جس کے چند پارے حسبِ ضرورت حذف کیے گئے ہیں)
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں


