منگل, فروری 18, 2025
اشتہار

بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سے متعلق پولنگ مٹیریل عدالت میں پیش کردیا

اشتہار

حیرت انگیز

اسلام آباد : بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں پشاورہائیکورٹ کے پی ٹی آئی انتخابی نشان سے متعلق فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی اپیل پر سماعت ہوئی، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سماعت کی، بینچ میں جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس مسرت ہلالی شامل ہیں۔

وکیل پی ٹی آئی بیرسٹرعلی ظفر نے سماعت کے وقفے کے بعد دلائل میں کہا کہ انٹراپارٹی الیکشن میں نامزدگی فارم ایک ہی سائیڈکی جانب سے جمع کرائے گئے، انٹراپارٹی الیکشن میں کوئی مدمقابل پینل ہی نہیں تھا، اسلام آباد میں انٹراپارٹی الیکشن کیلئے کوئی جگہ دینے کو تیارنہیں تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ کو دلائل کیلئےکتنا وقت درکار ہوگا؟ علی ظفر نے کہا کہ کوشش کروں گا ایک گھنٹے میں دلائل مکمل کرلوں، کاغذات نامزدگی جمع ہوناپہلا اور انتخابات کامقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

جسٹس مسرت ہلالی نے استفسار کیا کہ جہاں الیکشن ہوا کیا وہاں آپ کا دفتر ہے؟ وکیل نے جواب دیا کہ جس گراؤنڈ میں الیکشن ہوا وہ ہمارے دفتر کے ساتھ ہے، الیکشن کمیشن نےآئی جی کےپی کو پشاور میں سیکیورٹی فراہمی کیلئے خط لکھا، پی ٹی آئی انٹراپارٹی الیکشن سے متعلق تمام اخبا رات نے شائع کیا،عوام آگاہ تھے، پولیس کوالیکشن کے مقام سےمتعلق آگاہ کردیاگیاتھا۔

وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ اکبرایس بابرجس وقت آئےاس وقت تک نامزدگی فارم جمع کرانےکاوقت ختم ہوگیاتھا، وقت 3 بجے کا تھا مگر پھر بھی اکبر ایس بابر کو آفس آنے کی اجازت دی گئی، اگر اکبر ایس بابر کا پینل ہوتا تو انٹرا پارٹی الیکشن لڑ سکتے تھے، آج تک اکبرایس بابرنےاپناپینل نہیں دیا، ابھی بھی نہیں بتایاکہ میرایہ پینل تھااورمیں الیکشن لڑناچاہتاتھا، اگراکبرایس بابرکےپاس اپناپینل ہوتاتوہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ کاغذات نامزدگی جمع ہونا پہلا اور انتخابات کا مقام دوسرا مرحلہ تھا، پی ٹی آئی چاہتی تھی کہ پولنگ اسلام آباد میں ہو، شادی ہال سمیت کوئی بھی اپنی جگہ دینے کیلئے تیار نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ایک شخص الیکشن نہیں لڑ سکتا،کہیں لکھا ہوا ہے؟ بیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ ایک شخص انٹراپارٹی الیکشن نہیں لڑ سکتا، چیف جسٹس نے مزید پوچھا چیئرمین کے انتخابات کیلئے بھی پینل ہونا لازمی ہے؟ چیئرمین کا الیکشن کہاں ہوا تھا، جس پربیرسٹر علی ظفر نے بتایا کہ چیئرمین کیلئے پینل کا ہونا لازمی نہیں،وہ اکیلئے لڑ سکتا ہے، پارٹی چیئرمین کا الیکشن بھی پشاور میں ہوا تھا۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا الیکشن کمیشن نے پولنگ کا مقام اور دیگر تفصیلات مانگی تھیں کیا وہ بتائی گئیں؟ وکیل پی ٹی آئی نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کے اس خط کا جواب نہیں دیا لیکن پولیس کو آگاہ کر دیا تھا، میڈیا کے ذریعے پولنگ کے مقام سے بھی آگاہی فراہم کر دی تھی، جو پینل سامنے آئے انکی تفصیلات بھی ریکارڈ کا حصہ ہیں،اکبرایس بابر نے آج تک اپنا پینل ہی نہیں دیا کہ وہ کہاں سے الیکشن لڑناچاہتےتھے۔

چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے ریمارکس دیئے سینیٹرکاانتخاب بھی اِن ڈائریکٹ ہوتاہے،مطلوبہ ووٹ حاصل کرنےہوتےہیں، اگرآپ کوایک ووٹ بھی نہ پڑےتوآپ سینیٹرنہیں بن سکتےتھے، جس پر علی ظفر نے بتایا کہ میں ٹیکنوکریٹ نشست پر بلامقابلہ سینیٹ رکن منتخب ہواتھا۔

بیرسٹر علی ظفر نے پی ٹی آئی انٹراپارٹی انتخابات سےمتعلق پولنگ مٹیریل پیش کردیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے آپ کے آئین میں لکھا ہے کہ بلا مقابلہ بھی ہو تو بھی ووٹ ڈالنا پڑتا ہے،آپ ڈکٹیٹرشپ کی طرف جا رہے ہیں ایک آدمی کہہ دے یہ پینل وہ پینل، یہ جمہوریت تو نہ ہوئی، سیکرٹری جنرل بھی ایسے ہی آ گئے، چیئرمین بھی ایسے ہی آ گئے، بورڈ بھی ایسے ہی آ گیا۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ یہ الیکشن ہے یا سلیکشن یا کیا ہے ؟ آپ کیوں نہیں الیکشن کرواتے، مسئلہ کیا تھا؟ بڑی بڑی ہستیاں توبلا مقابلہ آجاتی ہیں لیکن آپ کےتوچھوٹےسےچھوٹاعہدیداربھی بلا مقابلہ منتخب ہوا، بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ن لیگ میں نواز شریف اور مریم نواز بلا مقابلہ منتخب ہوئے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے وکیل پی ٹی آئی سے مکالمے میں کہا کہ اے این پی کو بھی کوئی 20 ہزار کا جرمانہ ہوا ہے، وکیل نے بتایا کہ جی آج ہی فیصلہ آیا ہے 20 ہزار جرمانہ کیا گیا ہے اور کہا ہے کہ پارٹی انتخابات کروائیں۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا ریمارکس میں کہنا تھا کہ لیکن آپ کا مسئلہ تو کافی پرانا چل رہا ہے، اس طرح تو آپ آمریت کی جانب جا رہے ہیں، چیئرمین، سیکرٹری جنرل سمیت سب لوگ ایسے ہی آگئے یہ تو سلیکشن ہوگئی، پی ٹی آئی نے الیکشن کیوں نہیں کرایا آخر مسئلہ کیا تھا۔

وکیل پی ٹی آئی نے سپریم کورٹ میں ن لیگ کے بلامقابلہ انتخابات کا نوٹیفکیشن پیش کر دیا اور کہا ن لیگ میں بھی سب بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بلامقابلہ انتخابات پارٹیوں میں ہوتےرہتےہیں، اس پرتبصرہ نہیں کریں گے۔

علی ظفر کا کہنا تھا کہ اے این پی کے ضلعی صدور بھی بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے، اے این پی کو 20ہزارروپے جرمانہ کرکے پارٹی انتخابات جنرل الیکشن کے بعد کرانے کا کہا گیا تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ معاملہ فنڈنگ کا بھی 2014 سے پڑا ہے جو آپ چلنے نہیں دیتے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کل بیرسٹر گوہر وزیراعظم بن گئے تو کیا انہیں پارٹی کے لوگ جانتے ہوں گے؟ علی ظفر نے کہا کہ آپ اختلافی نقطہ نظر بھی سنتے ہیں جو اچھی بات ہے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کہنا تھا کہ آپ ہمیشہ پیشہ ورانہ انداز میں دلائل دیتے ہیں، بغیر انتخاب بڑے لوگ آ جائیں تو بڑے فیصلے بھی کرینگے، آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی ہوسکتا ہے کرنا پڑے، لوگ اپنے منتخب افراد کو جانتے تو ہوں۔

اہم ترین

ویب ڈیسک
ویب ڈیسک
اے آر وائی نیوز کی ڈیجیٹل ڈیسک کی جانب سے شائع کی گئی خبریں

مزید خبریں