تازہ ترین

بائیڈن نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

واشنگٹن: امریکی صدر جو بائیڈن پر اس حوالے سے تنقید کی جا رہی ہے کہ انھوں‌ نے کابل حکومت کی حفاظت کے لیے 2500 فوجی کیوں نہ چھوڑے؟

تفصیلات کے مطابق امریکی صدر جو بائیڈن کے افغانستان سے 31 اگست تک فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد طالبان نے تیزی سے افغانستان کے صوبوں پر قبضہ کیا اور کابل کا کنٹرول بھی سنبھال لیا، جس پر ناقدین سوال اٹھا رہے ہیں کہ کیوں صدر بائیڈن نے گرائی گئی حکومت کی حفاظت کے لیے کابل میں 2500 فوجی نہیں چھوڑے؟

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جب جو بائیڈن نے جنوری میں عہدہ سنبھالا تو افغانستان میں‌ اتنے ہی فوجی موجود تھے، سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تعداد 15 ہزار سے کم کی تھی۔

بظاہر کابل میں 2500 فوجی اور 16 ہزار سویلین کنٹریکٹرز موجود تھے، 29 فروری 2020 کو سابق امریکی صدر کے طالبان سے انخلا کے معاہدے کے بعد یہ فوجی افغان حکومت کو اقتدار میں رکھنے کے لیے کافی تھے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ معاہدے کی پاس داری کرتے ہوئے طالبان کی جانب سے امریکی اور نیٹو افواج کے خلاف حملے نہیں ہوئے اور ایک بھی امریکی فوجی ہلاک نہیں ہوا۔

‘کابل میں طالبان کے آنے کے بعد پاکستان میں ٹی ٹی پی دوبارہ متحرک ہو سکتی ہے’

ناقدین کے مطابق اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فوج کی کم تعداد بھی کابل کو طالبان کے خلاف مضبوط رکھ سکتی تھی، ریپبلکن سینیٹر میکونل کا کہنا ہے کہ ہمارے 2500 فوجی وہاں موجود تھے، افغانستان سے نکلنے کی بجائے جو بائیڈن افغان فوجوں کی مدد میں اضافہ کر سکتے تھے، اگر ہم طالبان کو افغانستان پر غالب آنے دیں اور القاعدہ واپس آئے تو عالمی سطح پر جہادی تحریک پر اس کا اثر ہوگا۔

فوجی تاریخ دان میکس بوٹ نے واشنگٹن پوسٹ میں لکھا تھا کہ اگر امریکا 2500 فوجی چھوڑتا اور فضائی مدد افغان فوجیوں کو فراہم کرتا تو توازن برقرار رہتا، طالبان صرف دور دراز علاقوں میں پیش قدمی کرتے، اور حکومتی عمل داری قائم رہتی۔

Comments

- Advertisement -