تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نیا کپتان کون؟ سفارشات چیئرمین پی سی بی کو ارسال

پاکستان کرکٹ ٹیم کا وائٹ بال میں نیا کپتان...

یومِ پیدائش: اردو کا مقبول ترین شاعر جون ایلیا ‘اپنے شہر کا گرامی نام لڑکا تھا’

آج اردو کے مقبول ترین شاعر جون ایلیا کا یومِ پیدائش ہے۔ فیس بک اور یو ٹیوب کی بدولت آج لاکھوں نوجوان ان کے حلیے، مشاعرہ پڑھنے کے مخصوص انداز سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی شاعری کو بھی پسند کرتے ہیں۔

یہ مداح اس خوش نصیب ہیں جو آج کے دور میں گوگل جیسی ‘نعمت’ کا فائدہ اٹھا کر نہ صرف جون ایلیا کی شاعری آسانی سے پڑھ سکتے ہیں بلکہ ان کی شخصیت اور زندگی کے بارے میں بہت کچھ جان سکتے ہیں۔ لیکن چند دہائیوں پہلے جب یہ سب نہیں تھا، تب بھی نوجوانوں کی بڑی تعداد جون ایلیا کی مداح تھی۔ اس وقت علم و ادب اور مطالعہ کا شوق اخبار، مختلف جرائد اور کتابوں سے پورا کیا جاتا تھا، اور پاکستانی نوجوان اپنے ‘محبوب’ شاعر کو پڑھتے اور مشاعروں‌ میں خوب جم کر انھیں سنتے تھے۔ اس زمانے میں ان کی شاعری کے دیوانوں کی بڑی تعداد ایسی بھی تھی جس نے ادبی پرچوں‌ میں ان کی غزلیں اور نظمیں‌ پڑھیں اور ان کی صرف تصویر ہی دیکھ سکے۔

آج جون صاحب کے مداحوں کی اکثریت اُن کے حلیے اور کلام پیش کرنے کے اُس انداز سے متاثر ہے جس میں‌ وہ کبھی اپنا سر پیٹتے، تو کبھی بال نوچتے نظر آتے ہیں۔ شدّتِ جذبات میں اپنی رانوں پر دونوں ہاتھ مارنا، اور شعر سناتے ہوئے کوئی تذکرہ چھیڑ دینا، حاضرین کی توجہ حاصل کرلیتا تھا۔

خیال آفرینی اور خوب صورت لفظیات کے اس شاعر کو باغی، انقلابی اور روایت شکن کہا گیا، جب کہ اپنے محبوب سے ان کا منفرد تخاطب، انوکھا اور بے تکلّف انداز شعر و سخن کے دلدادہ نوجوانوں کو بہت بھایا۔

جون ایلیا 1931ء میں آج ہی کے دن پیدا ہوئے تھے۔ اکثر اپنے کلام اور اپنی گفتگو میں سبھی سے بیزار نظر آنے والے جون ایلیا شاید دوسروں ناراض کرنا بھی خوب جانتے تھے۔ یہاں ہم ان کی ایک نظم ’’درختِ زرد‘‘ کے چند اشعار نقل کررہے ہیں جس میں انھوں نے اپنی زندگی کی کہانی سنائی ہے۔ اس نظم میں‌ وہ اپنے اکلوتے بیٹے زریون سے مخاطب ہیں۔ اشعار ملاحظہ کیجیے۔

سنو میری کہانی، پَر میاں میری کہانی کیا
میں یک سَر رایگانی ہوں، حسابِ رایگانی کیا
بہت کچھ تھا کبھی شاید پَر اب کچھ بھی نہیں ہوں میں
نہ اپنا ہم نفس ہوں، میں نہ اپنا ہم نشیں ہوں میں

کبھی کی بات ہے فریاد میرا وہ کبھی یعنی
نہیں اس کا کوئی مطلب، نہیں اس کے کوئی معنی
میں اپنے شہر کا سب سے گرامی نام لڑکا تھا
میں بے ہنگام لڑکا تھا میں صد ہنگام لڑکا تھا
مرے دَم سے غضب ہنگامہ رہتا تھا محلّوں میں
میں حشر آغاز لڑکا تھا، میں حشر انجام لڑکا تھا
مرے ہندو مسلماں سب مجھے سر پر بٹھاتے تھے
انہی کے فیض سے معنی مجھے معنی سکھاتے تھے

سخن بہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
وہ کچھ کہتا چلا آتا ہے بے باعث کے ہونٹوں سے
میں اشرافِ کمینہ کار کو ٹھوکر پہ رکھتا تھا
سو میں محنت کشوں کی جوتیاں منبر پہ رکھتا تھا
میں شاید اب نہیں ہوں وہ، مگر اب بھی وہی ہوں میں
غضب ہنگامہ پرور خیرہ سر اب بھی وہی ہوں میں
مگر میرا تھا اک طور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا
مگر میرا تھا اک دور اور بھی جو اور ہی کچھ تھا

میں اپنے شہر علم و فن کا تھا اک نوجواں کاہن
مرے تلمیذِ علم و فن مرے بابا کے تھے ہم سن
مرا بابا مجھے خاموش آوازیں سناتا تھا
وہ اپنے آپ میں گم مجھ کو پُر حالی سکھاتا تھا
وہ ہیئت داں وہ عالم نافِ شب میں چھت پہ جاتا تھا
رصد کا رشتہ سیاروں سے رکھتا تھا نبھاتا تھا
اسے خواہش تھی شہرت کی نہ کوئی حرص دولت تھی
بڑے سے قطر کی اک دور بین اس کی ضرورت تھی
مری ماں کی تمناؤں کا قاتل تھا وہ قلامہ
مری ماں میری محبوبہ قیامت کی حسینہ تھی
ستم یہ ہے، یہ کہنے سے جھجکتا تھا وہ فہّامہ
تھا بے حد اشتعال انگیز بد قسمت وہ علّامہ

خلف اس کے خذف اور بے نہایت نا خلف نکلے
ہم اس کے سارے بیٹے انتہائی بے شرف نکلے
میں اس عالم ترینِ دہر کی فکرت کا منکر تھا
میں سوفسطائی تھا، جاہل تھا اور منطق کا ماہر تھا
پر اب میری یہ شہرت ہے کہ میں بس اک شرابی ہوں

یہ طویل نظم ہے جس کے بارے میں ادیب، شاعر، کالم نگار، مترجم اور صحافی انور احسن صدیقی نے لکھا ہے کہ انھوں‌ نے مدّتوں‌ بعد اپنے بیٹے کو دیکھا تھا جس نے اُن سے بے رخی برتی اور کسی التفاف کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تب جون ایلیا نے یہ شاہ کار نظم لکھی جو ان کے شعری مجموعے میں‌ شامل ہے۔ جون ایلیا نے کہا تھا۔

کام کی بات میں نے کی ہی نہیں
یہ مرا طورِ زندگی ہی نہیں

Comments

- Advertisement -