تازہ ترین

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

روس نے فلسطین کو اقوام متحدہ کی مکمل رکنیت دینے کی حمایت کردی

اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا غزہ کی صورتحال کے...

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

یومِ اقبال: شاعرِ مشرق کی شخصیت اور فن کا مطالعہ بھی دانش ورانہ فکر کا متقاضی ہے

اقبال دانش وَر شاعر ہیں جنھیں صرف فنّی یا لسانی پیمانوں پر پرکھنا ناکافی ہوگا، اس لیے ان کا مطالعہ بھی ایک دانش ورانہ رویّے کا تقاضا کرتا ہے۔

آج علّامہ اقبال کا یومِ پیدائش ہے۔ شاعرِ مشرق اور حکیمُ الامّت علّامہ اقبال نہ صرف برصغیر میں اپنے فن و شخصیت میں ہر لحاظ سے ممتاز ہوئے بلکہ ایک مردِ قلندر، صوفی، فلسفی شاعر اور مصلح قوم کی حیثیت سے بالخصوص اسلامیانِ ہند اور عالمِ اسلام کے مختلف طبقات کے ظاہری اور باطنی امراض کی نشان دہی کرتے ہوئے ان میں بیداری کی نئی روح پھونکنے کی کوشش کی۔

اقبال کا فکری اثاثہ اور اشعار ہر عمر اور طبقے کے لیے ایک پیغام کی صورت عام ہوئے، لیکن ان کی فکر اور فلسفے کا مرکز و محور نوجوان ہیں۔

علّامہ اقبال نے اپنی شاعری سے نوجوانوں‌ کی تعلیم و تربیت، انھیں شعور و آگاہی دینے اور بیدار و خبردار رکھنے کے ساتھ آدابِ زندگی اور طریقِ زیست سکھایا۔ وہ اپنے بے نظیر تخیّل اور دانش ورانہ و حکمت آمیز اندازِ بیان کے سبب اردو کے عظیم شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

استعارات، تلازمات، کنایات، علامات اور تشبیہات ہر زبان کی شعری و ادبی روایات ہوتی ہیں اور اقبال کی شاعری میں یہ علامات اور استعارات خاص مفہوم میں استعمال ہوئی ہیں‌ اور اس مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بنی ہیں جو ان کی شاعری کا بنیادی وصف اور جوہر ہے۔

اقبال کی شاعری نوجوانوں سے بنیادی طور پر جدوجہد اور سعی و عملِ پیہم کا مطالبہ کرتی ہے۔ اپنی فکر کے اظہار کے لیے اقبال نے اردو کی شعری لسانیات میں شان دار اضافہ کیا۔ وہ نظم اور غزل دونوں‌ پر یکساں قادر تھے، لیکن نظم نگاری ان کا وہ حوالہ ہے جس نے انھیں برصغیر اور دنیا بھر میں‌ ایک فلسفی شاعر کی شناخت دی۔ ان کی نظموں میں زبردست نغمگی اور والہانہ پن ہے۔

شیخ محمد اقبال 9 نومبر 1877ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد شیخ نور محمد زیادہ پڑھے لکھے یا خوش حال نہیں تھے، لیکن اقبال نے ابتدائی تعلیم مکتب اور بعد میں اسکولوں میں‌ حاصل کی۔ وہ پرائمری، مڈل اور میٹرک کے امتحانوں میں امتیازی نمبروں سے پاس ہوئے اور وظیفہ لیا۔ ایف اے پاس کرکے بی اے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لیا، اقبال نے 1899ء میں فلسفہ میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور اسی کالج میں فلسفہ کے پروفیسر مقرر ہوئے۔ 1905ء میں وہ مزید تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اور کیمبرج میں داخلہ لیا۔

اقبال نے کم عمری میں ہی شاعری شروع کر دی تھی۔ 1890ء کے ایک طرحی مشاعرہ میں اقبال نے یہ شعر سنایا۔

موتی سمجھ کے شانِ کریمی نے چن لیے
قطرے جو تھے مرے عرقِ انفعال کے

اس وقت ان کی عمر محض 17 سال تھی اور اس شعر نے جیّد شعرا کو چونکا دیا۔ اس کے بعد اقبال انجمن حمایت اسلام کے جلسوں میں باقاعدگی سے شرکت کرنے لگے۔ 1900ء میں انجمن کے ایک جلسے میں انھوں نے اپنی مشہور نظم ’’نالۂ یتیم‘‘ پڑھی جو اپنے اچھوتے انداز اور کمال سوز و گداز کی وجہ سے اتنی مقبول ہوئی کہ اجلاس میں یتیموں کی امداد کے لیے روپوں کی بارش ہونے لگی اور آنسوؤں کے دریا بہہ گئے۔ بعد کے برسو‌ں میں‌اقبال شعرائے ہند کے درمیان صفِ اوّل میں نظر آئے۔ ان کی شاعری میں اردو اور فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ اور تراکیب ملتی ہیں جو ان کے زبان و بیان پر عبور اور قدرتِ اظہارِ بیان کا ثبوت ہے۔

اقبال نے کیمبرج اور میونخ یونیورسٹیوں سے فلسفہ میں اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کیں۔ لندن سے بیرسٹری کا امتحان بھی پاس کیا۔ اسی عرصے میں ان کی ملّی نظموں کا وہ سلسلہ شروع ہوا جو ان کی شہرتِ دوام کا باعث بنا۔ ان میں ’’شکوہ‘‘، ’’شمع و شاعر‘‘، ’’خضر راہ‘‘ اور ’’طلوع اسلام‘‘ انجمن کے جلسوں میں پڑھی گئیں۔ 1910ء میں فارسی مثنوی’’اسرار خودی‘‘ شائع ہوئی اور پھر تین سال بعد ’’رموز بے خودی‘‘ منظر عام پر آئی جو ’’اسرار خودی‘‘ کا تتمّہ تھی۔ اس کے بعد اقبال کی شاعری کے مجموعے یکے بعد دیگرے شائع ہوتے رہے۔ آخری مجموعہ ’’ارمغانِ حجاز‘‘ ان کی وفات کے بعد شائع ہوا۔

اقبال نے عملی سیاست میں بھی حصّہ لیا اور پنجاب قانون ساز اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے اور 1930ء میں مسلم لیگ کے الٰہ آباد اجلاس میں ان کو صدر چنا گیا۔ اسی جلسہ میں انھوں نے قیام پاکستان کا مبہم خاکہ پیش کیا جو بعد میں ہندوستان سے الگ پاکستان کے قیام کے مطالبہ کی اساس بنا۔ وہ 1938ء میں‌ اس جہانِ فانی سے رخصت ہوئے۔

اقبال کی شاعری میں مقصد کو اوّلیت حاصل ہے۔ انھوں‌ نے اپنے کلام سے اقوامِ مشرق میں‌ بیداری کی نئی لہر پھونکنے کی کوشش کی۔ اقبالؔ کی شاعری قاری کو ان کا گرویدہ اور شیدائی بناتی ہے۔ انھیں‌ بیسویں صدی کا عظیم اردو شاعر تسلیم کیا جاتا ہے۔

علاّمہ اقبال نے اپنی شاعری میں فطرت اور حیات، خاص طور پر چرند پرند کی حرکا ت و سکنات، ان کی قوّت و طاقت، عادات اور خوبیوں، خصائل اور اسی طرح ان کی کم زوریوں یا صفات و عاداتِ بد کو استعاروں اور علامات کی صورت اور مخصوص معنوں میں‌ برت کر نوجوانوں‌ کو درسِ خودی دیا ہے اور خود آگاہی پر آمادہ کرنے کی کوشش کی ہے جس کی بدولت شاعر کی نظر میں‌ وہ مادّی و روحانی ترقّی کی نئی رفعتوں سے ہم کنار ہوسکتے ہیں۔

حکیم ُالامت نے پرندوں کی معرفت نہ صرف انسانی جذبات کو خوبی سے پیش کیا بلکہ اس کے ذریعے مسلمانوں‌ اور بالخصوص نوجوانوں‌ کو کئی انفرادی اور اجتماعی مسائل کے حل کا راستہ سجھانے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کو فکروعمل پر آمادہ کرتے ہوئے علّامہ اقبال کے یہ اشعار ملاحظہ کیجیے جس میں انھوں‌ نے پرندوں کو مثال بنایا ہے۔

شاہین
علامہ اقبال کی شاعری کا ایک خوش رنگ پرندہ شاہین ہے جس کی بلند پرواز، قوت و طاقت اور عزم کا اظہار ان کے کلام میں یوں ملتا ہے۔

برہنہ سَر ہے توعزم بلند پیدا کر
یہاں فقط سرِ شاہیں کے واسطے ہے کلاہ

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا
پُر دَم ہے اگر تُو تو نہیں خطرۂ افتاد

شہباز
شاعرِ مشرق نے اس پرندے کے شکار کرنے کی صلاحیت، قوتِ پرواز اور جھپٹنے کی تیزی سے ہمیں سبق دیتے ہوئے بتایا ہے۔

نگاہِ عشق دلِ زندہ کی تلاش میں ہے
شکار مردہ سزاوارِ شاہباز نہیں

ایک اور شکاری پرندے باز کا ذکربھی شاہین اور شہباز کی طرح علامہ اقبال کے فلسفۂ خودی کو بیان کرتا ہے۔

بلبل و طاؤس
اقبال نے بلبل و طاؤس کو مغربی تہذیب کی چمک دمک اور اس کے ظاہر کی رعنائی و دل کشی سے جوڑا ہےاور کئی مقامات پرانھوں نے نوجوانوں کےلیے اسے اپنے پیغام کا وسیلہ بنایا ہے۔

کر بلبل و طاؤس کی تقلید سے توبہ
بلبل فقط آواز ہے، طاؤس فقط رنگ

کرگس
یہ پرندہ مردار خور، مگر بلند پرواز ہے۔ اقبال کا کہنا ہے کہ خود دار و بلند عزم مومن کی صفات کرگس جیسی نہیں ہوسکتیں۔ وہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پرواز کرے، مگر اس میں وہ عزم اور حوصلہ، ہمت و دلیری کہاں جو شاہین کا وصف ہے۔

پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں
کرگس کا جہاں اور ہے شاہیں کا جہاں اور

عقاب
یہ بھی بلند پرواز پرندہ ہے جس کی طاقت کو اقبال نے جوانوں میں ولولہ، ہمّت اور عزم پیدا کرنے کے لیے اپنے شعر میں یوں پیش کیا ہے۔

عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں

ان پرندوں کے علاوہ تیتر، چرخ، چکور، مرغ جیسے پرندوں کا ذکر بھی اقبال کی شاعری میں ملتا ہے جن کی مدد سے اقبال نے مسلمان قوم کو کوئی نہ کوئی درس دیا اور حسنِ عمل کی تلقین کی۔

Comments

- Advertisement -