شہرۂ آفاق مصوّر اور خطّاط صادقین شاعر بھی تھے اور رباعی ان کی محبوب صنفِ سخن۔
ہیں قاف سے خطّاطی میں پیدا اوصاف
ابجد کا جمال جس کا کرتا ہے طواف
بن مقلّہ ہو یاقوت ہو یا ہو یہ فقیر
ہم تینوں کے درمیان اسما میں ہے قاف
صادقین کی یہ رباعی ان کے تخلیقی وفور اور ان کی فکرِ رسا کا خوب صورت اظہار ہے۔
آج اس نادرِ روزگار شخصیت کا یومِ پیدائش ہے۔ سیّد صادقین احمد نقوی ان کا پورا نام تھا۔ وہ 30 جون 1930ء کو امروہہ کے علم پرور اور فنون میں ممتاز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا خوش نویس اور ماہر خطّاط تھے۔
صادقین نے بھی علم و فنون کا راستہ اپنایا جن کی وجہِ شہرت اسلامی خطّاطی ہے۔ انھوں نے اس فن کو نئی جہات سے روشناس کیا اور نام وَر ہوئے۔ صادقین نے قرآنی آیات کے علاوہ مشہور اشعار کو بھی اپنے منفرد انداز اور فنی نزاکتوں کے ساتھ کینوس پر اتارا۔
صادقین نے ابتدائی تعلیم امروہہ سے حاصل کرنے کے بعد آگرہ یونیورسٹی سے بی اے کیا۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان پاکستان آگیا اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔
کم عمری ہی سے صادقین کو منظر کشی پسند تھی۔ سو، گھر کی دیواروں نے اس شوق کی مشق میں ان کا خوب ساتھ دیا، وہ ان پر نقش و نگار بناتے رہے اور پھر یہی ان کا فن ٹھیرا۔ صادقین 24 سال کے تھے جب ان کے فن پاروں کی پہلی نمائش ہوئی۔
اس فن کی دنیا میں صادقین کی خدمات کے اعتراف میں جہاں انھیں قومی سطح پر اعزازات سے نوازا گیا، وہیں دنیا بھر میں ان کے فن پاروں کی نمائش بجائے خود ان کا ایک اعزاز اور پذیرائی تھی۔