تازہ ترین

چین پاکستان معاہدوں کے حوالے سے آئی ایم ایف کا اہم بیان

عالمی مالیاتی ادارے کا کہنا ہے کہ چین پاکستان...

جون تک پی آئی اے کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا جائے گا، وفاقی وزیر خزانہ

کراچی : وزیرخزانہ محمداورنگزیب کا کہنا ہے کہ پی...

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

میں ڈوب رہا ہوں ابھی ڈوبا تو نہیں‌ ہوں: معروف شاعر آفتاب مضطر کی کتاب کی تقریب پذیرائی

علم عروض عوام کا نہیں، خواص کا علم ہے، بدقسمتی سے اس سے عدم توجہی بھی علما اور شعرا ہی نے برتی. البتہ وقفے وقفے سے ایسی تحقیقی کاوشیں‌ سامنے آتی رہیں، جنھوں نے اس فن کی اہمیت و افادیت کا ازسر نو تعین کیا.

 ایسی ہی ایک کتاب  ڈاکٹر آفتاب مضطر کی ’’اردو کا عروضی نظام اور عصری تقاضے‘‘ بھی ہے، جس کی اشاعت کے ساتھ ہی اس موضوع پر چھائی دھند چھٹنے لگتی ہے.

یہ ڈاکٹر آفتاب مضطر  کا تحقیقی مقالہ ہے، جس  کی تقریب پذیرائی 13 اگست 2018 کو فاران کلب میں‌ منعقد ہوئی.

یاد رہے کہ  آفتاب مضطر  ’’تم ناراض ہو‘‘ اور ’’ساحل پر کھڑے ہو‘‘ سمیت کئی یادگار گیتوں کے خالق ہیں۔

تقریب میں معروف افسانہ نگار اور نقاد ناصر شمسی نے مختصر مگر پرفکر مضمون پڑھا، جس میں‌ کتاب کے خدو خال پر روشنی ڈالی گئی.

سینئر شاعر خالد  معین نے آفتاب مضطر کو مبارک باد پیش کرتے ہوئے علم عروض کے احیا کی ان کی کوشش کو خراج تحسین پیش کیا۔سید ایاز محمود نے سرورق کی اشاریت اور اس کی وضاحت بڑی تفصیل سے کی اورعروض کی اہمیت اور اس سے واقفیت کو ضروری قرار دیا.

ماہر تعلیم پروفیسر انواراحمد زئی نے ایک جانب جہاں‌ جامعات میں‌ ہونے والی خام تحقیق اور نیم پختہ مقالات کو آڑے ہاتھوں لیا، وہیں آفتاب مضطر کے مقالے کو جامع تنقیدی اور تخلیقی کارنامہ قرار دیا، جو مستقبل کے محققین کے لیے  مشعل راہ ہوگا۔

مہمان خصوصی استاذ الاساتذہ  ڈاکٹر یونس حسنی تھے، جن کا کہنا تھا کہ  جب کسی علم کے ماہرین عنقا ہونے لگیں، تو جو ماہر باقی رہ جائیں ان کی اہمیت میں اضافہ ہوجاتا ہے، اس اعتبار سے آفتاب مضطر کی علمی اور ادبی اہمیت بڑھ گئی ہے.

محفل کے صدر شکیل عادل زادہ نے مختصر صدارتی خطبے میں مضطر کو مبارک باد بھی دی اور ان کے کام کی اہمیت کی توثیق بھی فرمائی۔

مقررین نے یہی موقف اختیار کیا کہ عروض شاعری کے لیے لازم ہے، اس لیے اس کی موت کا تصور بے معنی ہے، جس کو شعر کہنا ہو یا جس کو شعر کے حسن پر گفتگو کرنی ہو وہ علم عروض سے شناسائی حاصل کرے، یعنی شاعر اور نقاد دونوں کے لیے علم عروض سے واقفیت لازمی ہے۔

واضح رہے کہ ڈاکٹر آفتاب مضطر نے اس کتاب میں اس صنف پر لکھی گئی دیگر تصانیف کا بھی ناقدانہ جائزہ لیا ہے اور ان کی خوبیوں اور خامیوں پر سیر حاصل تبصرہ کیا ہے۔

Comments

- Advertisement -