تازہ ترین

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

زبان اور اندازِ بیان

دنیا کی مختلف زبانیں‌ سیکھنے والوں کے لیے صرف یہی کافی نہیں ہوتا کہ وہ اس کے قواعد، املا اور رسمُ‌ الخط سے واقف ہوجائیں‌ بلکہ کسی بھی زبان کو خوب خوب سیکھنے کے ساتھ اس کے مختلف لب و لہجوں اور مقامی لوگوں کے اندازِ بیاں کو بھی سمجھنا ضروری ہوتا ہے، لیکن یہ بہت مشکل ہے کہ کوئی غیرمقامی اور دور دراز کا رہنے والا سلیس اور بامحاورہ زبان بول اور اچھی طرح سمجھ سکے۔

یہاں ہم ایک مشہور واقعہ آپ کی دل چسپی کے لیے پیش کررہے ہیں جو ممتاز ادیب اور نقاد آل احمد سرور نے اپنے ایک مضمون میں تحریر کیا۔

ایک انگریز افسر نے اپنی ملازمت کے دوران کسی منشی سے فارسی اور اردو پڑھی۔ جاتے وقت ان سے کہا کہ میں تمہارے لئے کیا کرسکتا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ مجھے ایک سرٹیفکیٹ دیجیے تاکہ کوئی دوسرا افسر آئے تو اسے بھی پڑھا سکوں۔ چنانچہ ان انگریز افسر نے ایک سرٹیفکیٹ دیا جس میں ان (منشی) کی علمی قابلیت کی بڑی تعریف کی تھی۔ اس سرٹیفکیٹ کو لے کر یہ منشی جی نئے افسر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس نے پڑھ کر ان سے کہا کہ صاحب نے تمہاری بڑی تعریف کی ہے۔ تم بڑا قابل ہے۔ انہوں نے حسبِ دستور جواب دیا کہ یہ صاحب کی ذرّہ نوازی ہے، میں کس قابل ہوں۔

انگریز افسر یہ سمجھا کہ منشی جی نے پرانے افسر کو دھوکہ دیا ہے اور حقیقت اب ظاہر کر دی ہے۔ اس نے اس پرانے افسر کو لکھا کہ منشی تو خود اپنی نالائقی کا اعتراف کرتا ہے۔ تم کیسے اس کی تعریف کرتے ہو۔ تب اسے یہ جواب ملا کہ وہ واقعی بہت قابل ہے۔ یہ صرف اس علاقے کے لوگوں کا اندازِ بیان ہے۔

Comments

- Advertisement -