لندن: برطانیہ میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ کے مریضوں کے لیے بروفن کا استعمال نقصان دہ نہیں ہے، یہ اس حوالے سے اب تک کی جانے والی سب سے بڑی تحقیق ہے۔
طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع ایک تحقیق کے مطابق ورم کش ادویات جیسے بروفن کا استعمال کووڈ 19 کے مریضوں کی حالت کو زیادہ خراب کرنے یا موت کا خطرہ نہیں بڑھاتا۔
تحقیق میں 72 ہزار سے زائد افراد کو شامل کیا گیا ہے۔
ورم کش ادویات عموماً شدید تکلیف اور جوڑوں میں ورم سے متعلق امراض کے لیے زیادہ استعمال کی جاتی ہیں اور کرونا وائرس کی وبا کے آغاز میں یہ بحث سامنے آئی تھی کہ ان ادویات کا استعمال کووڈ 19 کی شدت میں اضافے کا باعث تو نہیں بنتا۔
برطانیہ میں ہونے والی یہ تحقیق اس حوالے سے اب تک کی سب سے بڑی تھی اور اس میں واضح شواہد سامنے آئے جن سے عندیہ ملتا ہے کہ ورم کش ادویات کا استعمال کووڈ 19 کے مریضوں کے لیے محفوظ ہوتا ہے۔
تحقیق کے دوران ایک تہائی مریضوں (4211 میں سے 1279) نے کووڈ 19 کے باعث اسپتال میں داخلے سے قبل ان ادویات کا استعمال کیا تھا اور ان کا انتقال ہوا۔ مگر ان ادویات کا استعمال نہ کرنے والے افراد ایک تہائی مریضوں (67968 میں سے 21256) میں بھی اموات کی شرح یہی تھی۔
جوڑوں کے امراض کے شکار کووڈ کے مریضوں میں ان ادویات کے استعمال سے اموات کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا۔
ایڈنبرگ یونیورسٹی کے پروفیسر ایون ہیریسن اس تحقیقی ٹیم کے سربراہ تھے اور انہوں نے بتایا کہ ان ادویات کا استعمال دنیا بھر میں مختلف امراض کے لیے عام ہوتا ہے، بیشتر افراد کو روزمرہ کی سرگرمیوں کے لیے ان پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ کرونا کی وبا کے آغاز میں ہمیں یہ یقینی بنانے کی ضرورت تھی کہ یہ عام ادویات کووڈ کے مریضوں کی حالت زیادہ خراب کرنے کا باعث تو نہیں بنتیں، اب ہمارے پاس واضح شواہد ہیں کہ یہ ادویات کووڈ کے مریضوں کے لیے محفوظ ہیں۔
تحقیق کے دوران ایسے مریضوں کا ڈیٹا کا اکٹھا کیا گیا جن کو یہ ادویات تجویز کی گئی تھیں اور وہ ان کا استعمال اسپتال میں داخلے سے 14 دن پہلے تک کررہے تھے۔ یہ مریض انگلینڈ، اسکاٹ لینڈ اور ویلز کے 255 طبی مراکز میں جنوری سے اگست 2020 کے دوران داخل ہوئے تھے۔
تحقیق میں شامل 72 ہزار سے زیادہ مریضوں میں سے 5.8 فیصد نے اسپتال میں داخلے سے قبل ان ادویات کا استعمال کیا تھا۔
تمام تر عوامل کا تجزیہ کرنے کے بعد دریافت کیا گیا کہ ورم کش ادویات استعمال نہ کرنے والے افراد کے مقابلے میں انہیں کھانے والے افراد میں آئی سی یو میں داخلے، وینٹی لیشن یا آکسیجن کی ضرورت کا امکان کم ہوتا ہے۔