تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

کیا موسم گرما واقعی کورونا کی روک تھام کرسکتا ہے؟ نئی تحقیق میں اہم انکشاف

برطانیہ میں ہونے والی نئی طبی تحقیق میں کہا گیا ہے کہ موسم کے اعتبار سے کورونا کے پھیلاؤ کی شرح کم یا زیادہ ہوسکتی ہے لیکن وبا کی روک تھام یا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔

امپرئیل کالج لندن کی تحقیق کے مطابق موسم گرما یا درجہ حرارت کا بڑھنا کورونا کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔ اس مشاہدے کے لیے پہلی بار ماحولیاتی ڈیٹا کو وبائی ماڈلز سے باہم ملا کر کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی جس سے دریافت ہوا کہ درجہ حرارت اور آبادی کورونا کے پھیلنے کا تعین کرتی ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت سے وائرس کے پھیلاؤ میں بہت معمولی تبدیلی رونما ہوتی ہے اس لیے سماجی فاصلہ اور دیگر احتیاطی تدابیر کا استعمال ضروری ہے۔

تجزیے کے دوران یہ بھی عندیہ سامنے آیا کہ خزاں اور سرما میں درجہ حرارت میں کمی سے وائرس کا پھیلاؤ احتیاطی تدابیر کے بغیر بہت آسانی سے پھیل سکتا ہے۔ فلو اور دیگر وائرسز پر ماحولیاتی عناصر جیسے زیادہ درجہ حرارت اور کم نمی والا ماحول اثر انداز ہوکر ان کے پھیلاؤ کی شرح کو کم کردیتا ہے۔

ماہرین نے کہا کہ موسم کے اثرات کی بنیاد پر کورونا کے پھیلاؤ کے علاوہ انسانی رویے بھی وبا کی منتقلی کی وجہ بنتے ہیں، گنجان آبادی والے علاقوں میں وائرس زیادہ پھیلتا ہے۔ مثال کے طور پر ایران اور برازیل میں موسم بہت گرم ہوتا ہے مگر وہاں وائرس کے پھیلاؤ کی شرح بہت زیادہ تھی۔

دھوپ کا کورونا سے کیا تعلق؟ ماہرین دم بخود

اس تحقیق کے دوران امریکا کے مختلف علاقوں کا بھی جائزہ لیا گیا جہاں کے موسم ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں، ٹھوس شواہد سے پتا چلا کم درجہ حرارت والے موسم اور زیادہ آبادی والے علاقوں میں کورونا کی زیادہ افزائش دیکھی گئی۔ موسم کی تبدیلی وائرس کے پھیلاؤ پر اثرانداز ہوسکتی ہے لیکن انسانی رویے بھی کار فرما ہیں۔

کئی ممالک میں درجہ حرارت گرم رہا لیکن پھر بھی وہاں کورونا کا پھیلاؤ زیادہ ریکارڈ کیا گیا۔ موسم کا اثر اس وقت بیکار ہوجاتا ہے جب کسی قسم کی احتیاطی تدابیر کو اختیار نہ کیا جائے۔ اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے ‘پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز’ میں شایع ہوئے ہیں۔

Comments

- Advertisement -