تازہ ترین

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

وزیراعظم شہباز شریف کی مزار قائد پر حاضری

وزیراعظم شہباز شریف ایک روزہ دورے پر کراچی پہنچ...

ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان مکمل کرکے واپس روانہ

کراچی: ایران کے صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی دورہ پاکستان...

پاک ایران تجارتی معاہدے پر امریکا کا اہم بیان آگیا

واشنگٹن : نائب ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا...

کرپشن مقدمات پر 30دن میں فیصلہ ممکن نہیں، چیئرمین نیب نے سپریم کورٹ کو آگاہ کردیا

اسلام آباد : چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کو آگاہ کیا ہے کہ رپشن مقدمات پرتیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں ، موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کے لیے ناکافی ہیں۔

رپشن مقدمات پرتیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے سپریم کورٹ کو بتا دیا۔ مزید کہا کہ حکومت کو کئی مرتبہ کہ چکے کہ نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

تفصیلات کے مطابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے لاکھڑا پاور پلانٹ تعمیر میں بے ضابطگیوں سے متعلق کیس میں اپنا جواب سپریم کورٹ میں جمع کرادیا۔

جس میں چیئرمین نیب نے صاف کہا کہ کرپشن مقدمات پر تیس دن میں فیصلہ ممکن نہیں، پچاس پچاس گواہ بنانا قانونی مجبوری ہے اوت موجودہ احتساب عدالتیں مقدمات کا بوجھ اٹھانے کیلئے ناکافی ہیں،حکومت کوکئی مرتبہ کہہ چکے نیب عدالتوں کی تعداد بڑھائی جائے، مقدمات کے بوجھ کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے۔

جواب میں کہا گیا ہے کہ لاہور کراچی راولپنڈی اسلام آباد اور بلوچستان میں اضافی عدالتوں کی ضرورت ہے، ہر احتساب عدالت اوسط 50 مقدمات سن رہی ہے۔ 120 ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز نہیں تو ریٹائرڈ جج بھی تعینات ہو سکتے اور احتساب عدالتوں کیخلاف اپیلیں سننے کیلئے بھی ریٹائرڈ ججز کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا ہے کہ نیب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر سختی سے عمل کرتی ہیں، احتساب عدالتیں ضابطہ فوجداری پر عمل نہ کرنے کا اختیار استعمال نہیں کرتیں جبکہ ملزمان کی متفرق درخواستیں اور اعلی عدلیہ کے حکم امتناع بھی تاخیر کی وجہ ہیں۔

چیئرمین نیب نے مزید کہا عدالتیں ضمانت کیلئے سپریم کورٹ کے وضع کردہ اصولوں پر عمل نہیں کرتیں اور ملزمان کو اشتہاری قرار دینے کا طریقہ کار بھی وقت طلب ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک سے قانونی معاونت ملنے میں تاخیر بھی بروقت فیصلے نہ ہونے کی وجہ ہے، عدالتوں کی جانب سے “سیاسی شخصیات” کے لفظ کی غلط تشریح کی جاتی ہے۔ غلط تشریح کے باعت سیاسی شخصیات کا مطلب غیر ملکی اداروں کو سمجھانا مشکل ہوجاتا ہے۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے جواب میں مزید کہا رضاکارانہ رقم واپسی کا اختیار استعمال کرنے سے سپریم کورٹ روک چکی ہے، رضاکارانہ رقم واپسی کی اجازت ملے تو کئی کیسز عدالتوں تک نہیں پہنچیں گے۔

Comments

- Advertisement -