تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

گھریلو تشدد، ذہنی امراض اور ایک ناول

ورجینا وولف نے کہا تھا،”ناول ایک ایسی صنف ہے، جس میں دنیا کا ہر موضوع سمویا جاسکتا ہے۔”

یہ سچ ہی تو ہے۔ پھر یہ صنف اتنی پرقوت ہے کہ بیانیہ کی الگ الگ تکنیکس، جیسے واقعات نگاری، تجریدی ڈھب، تجزیاتی انداز ، یہاں تک کہ فلسفیانہ موشگافیوں کا بھی بوجھ ڈھو لیتی ہے۔

صدیوں سے یہ کتاب ہی تھی، جو کسی مسئلے کی نشان دہی اور  عوام میں شعور پیدا کرنے کا موثر  ترین ذریعہ ٹھہری۔ ممکن ہے، نشان دہی کے معاملے میں ٹی وی چینلز کتاب سے آگے نکل گئے ہوں، مگر اثر پذیری میں کتاب اب بھی غالب ہے۔ اور ’’ابھی جان باقی ہے‘‘ بھی ایسی ہی ایک کتاب ہے۔

موضوع کیا ہے؟

یہ ناول گھریلو تشدد کے ٹول کے ذریعے ایک ایسے مسئلے کی نشان دہی کرتا ہے، جس کی جانب شاید کم ہی توجہ دی گئی۔ اور یہ ہے: ذہنی امراض۔

مصنف کیوں کہ ذہنی معذوری ڈسلیکسیا کا شکار ہے، اسی باعث وہ ان امراض کے اثرات کو، بالخصوص گھریلو تشدد کے تناظر میں زیادہ موثر انداز میں بیان کرسکتا تھا، اور اس نے ایسا ہی کیا۔ 

کیا اس نے یہ عمل کاملیت کے ساتھ انجام دیا؟ کسی بھی فکشن نگار کے پہلے ناول اسے اس نوع کی توقع کرنا اپنی اساس ہی میں غیرفطری ہے۔

احساسات اور رویے، جنھیں قلم بند کیا گیا؟

ناول نگار نے  ذہنی امراض سے متعلق لاعلمی، عدم توجہی، مریض کے اہل خانہ کی ٹال مٹول جیسے رویے کو  خوبی سے منظر کیا۔

’’ابھی جان باقی ہے‘‘ میں مجبوری کے ایک ایسے احساس کو پیش کیا گیا، جو  معاشرہ افراد، بالخصوص عورت پر عائد کر تا ہے۔ پہلے شادی، پھر بچوں کو پیدایش، اس پر مستزاد مالی طور پر شوہر اور سسرال پر انحصار، یوں وہ کلی طور پر محدود ہو جاتی ہے۔ اس محدودیت کا کرب ہم تک ان صفحات کے ذریعے پہنچتا ہے۔

کہانی پلاٹ اور کرداروں کی

یہ حنا کی کہانی ہے، جو مہندی آرٹسٹ ہے، جس کی شادی ماجد سے ہوتی ہے، جو اوروں سے کچھ مختلف ہے، مگر اتنا بھی نہیں کہ آدمی چونک اٹھے۔

البتہ دھیرے دھیرے پریشان کن واقعات رونما ہونے لگتے ہیں۔ تشدد کا عنصر بڑھتا جاتا ہے، ساتھ ساتھ ہم ان واقعات، سانحات کے روبرو ہوتے ہیں، جو ہماری یادوں میں محفوظ ہیں کہ یہ کہانی 2017 تک آتی ہے۔

بنیادی کردار تو حنا اور ماجد ہی ہیں، باقی کردار ان ہی دو سے جڑے ہوئے ہیں۔ کردار نگاری موثر ہے، کہیں کردار مصنوعی نہیں لگتا۔

ناول کے آخر تک ہم حنا سے تو ہمدردی محسوس کرتے ہیں، مگر جو ذہنی مریض ہے، یعنی ماجد، اس کے لیے ہم میں ہمدردی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ کسی اور بیانیہ میں شاید یہ مسئلہ نہیں ہو، مگر وہ ناول، جو اسی موضوع پر ہو، اس میں قاری یہ تقاضا ضرور  کرتا ہے۔

تکنیک اور زبان

چند صفحات پڑھ کر ہی آپ کو انداز ہوجاتا ہے کہ ناول نگار عصری ادب سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ناول اپنے اختتامیے سے شروع ہوتا ہے، ایک معصوم بچی، خون، مہندی، ایمبولینس اور پھر ایک فائر۔ یہ ایک موثر  آغاز ہے۔

 ہر حصے پر ایک عنوان ٹکایا گیا ہے، چند قارئین کو اس سے الجھن ہوتی ہے، مگر راقم کے نزدیک یہ پڑھت کے عمل کو سہل بناتا ہے، البتہ گرفت کا تقاضا ضرور کرتا ہے۔  بے شک اِسے مزید موثر بنایا جاسکتا تھا۔

ناول میں برتی جانے والی زبان کہانی کے تقاضے بڑی حد تک نبھاتی ہے۔ عام بول چال بھی گرفت کیا گیا ہے۔ البتہ رموز و اوقاف کے استعمال اور جملے کو لکھنے کے ڈھب میں بہتری کی گنجایش ہے۔

جہاں جہاں جزئیات بیان کی گئیں، وہ قاری تک وہ احساس پہنچانے میں کامیاب رہیں، جو لکھاری کا مقصد تھا، چند مناظر واقعی متاثر کن ہیں، جن اضافی معلوم ہوتے ہیں۔

حرف آخر

ابھی جان باقی ہے مطالعیت سے بھرپور ناول ہے، یہ خود کو پڑھوانے کی قوت رکھتا ہے۔ ساتھ ہی یہ یوں بھی اہم ہوجاتا ہے کہ یہ ایک حساس موضوع کو منظر کرتا ہے، جس کی بابت ہم کم ہی بات کی اور یہ صرف مسئلہ کو اجاگر کرنے تک محدود نہیں رہتا، بلکہ کامیابی سےایک کہانی بھی بیان کرتا ہے۔

ہاں، اسے مزید ایڈٹ کیا جاسکتا تھا،223 صفحات زیادہ تو نہیں، مگر یہ بیانیہ دو سو صفحات میں زیادہ موزوں لگتا۔

ہم چنگیز راجا کے اگلے ناول سے کیسی امیدیں باندھ سکتے ہیں، اس کی خبر ہم اس ناول سے مل جاتی ہے۔

علم و عرفان پبلشرز کے زیر اہتمام، اچھے گیٹ اپ میں شایع ہونے والے اس ناول کی قیمت چھ سو روپے ہے۔

Comments

- Advertisement -