کراچی سے خیبر تک ایک ہی دہائی کہ جان لے گئی مہنگائی اب تو سستے بازار بھی اس ریکارڈ توڑ مہنگائی کی دلدل میں دھنس گئے ہیں۔
آٹا، چینی، تیل، گھی، چاول، دالیں، گوشت، سبزی، پھل، پٹرول، بجلی، گیس، دوائیں۔ غرض کیا چیز ہے جو مہنگی نہیں ہے۔ کراچی سے خیبر تک عوام افق کی بلندیوں کو بھی پار کرتی مہنگائی پر سراپا احتجاج ہے اور ان کی ایک ہی دہائی ہے کہ جان لے گئی ہے یہ مہنگائی اور اب تو سستے بازار بھی مہنگائی کی دلدل میں دھنس کر رہ گئے ہیں۔
غریب کیا متوسط طبقے کی حالت یہ ہوگئی ہے کہ جو سبزی لیتا ہے اس کے پاس آٹا خریدنے کے لیے پیسے نہیں بچتے، جیسے تیسے کر کے آٹا خرید لیا تو پھر بچوں کے لیے دودھ خریدنے کی سکت نہیں۔ دو وقت کی روٹی کے حصول نے مجبور اور لاچار عوام کے آنسو نکلوا دیے ہیں۔
کراچی سے سستے بازار صرف نام کے سستے رہ گئے ہیں کیونکہ وہاں بھی مہنگائی نے اپنے پر پھیلا لیے ہیں۔ ٹماٹر 150 روپے، آلو 120، پیاز 100، بھنڈی 240 اور گوبھی 150 روپے فی کلو تک فروخت کی جا رہی ہے اور شہری یہ کہنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ زندگی کیسے گزاریں۔
یہ حال صرف کراچی کا نہیں بلکہ اسلام آباد، لاہور، فیصل آباد، کوئٹہ، پشاور سب کی ایک ہی دکھ بھری کہانی ہے۔ دکانداروں کو بھی اپنی روزی کے لالے پڑگئے ہیں کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ مہنگائی کی وجہ سے دکانداری بھی کم ہوگئی ہے۔
زندگی یوں بھی اور دشوار ہوگئی ہے کہ جان بچانے والی دوائیں مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ ناپید بھی ہوتی جا رہی ہیں جس کے باعث کسی نہ کسی طرح سانسوں سے ناطہ جوڑے مریضوں کی مشکلات اور اذیت بڑھ گئی ہے اور انہوں نے دواؤں کی قیمتوں میں فوری کمی اور دستیابی کا مطالبہ کیا ہے۔
ہر 15 دن بعد گرتے پٹرول بم سے غریب کی سواری موٹر سائیکل بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہونے لگی ہے۔ مہنگائی نے پٹرول ہی نہیں بلکہ پنکچر، ٹائر، ٹیوب، مکینک سب سکے ریٹ بڑھا دیے ہیں۔
عوام کہتے ہیں کہ حکومت کم از کم عوام کو جینے کا تو حق دے اور مہنگائی کے جن کو کنٹرول کرے۔