تازہ ترین

کالاش میں بہار کی آمد، جوشی تہوار کے رنگ بکھر گئے

ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان واقع چترال کی انتہائی خوبصورت اور رومانوی وادی کالاش میں موسم بہار کی آمد کے ساتھ ہی’جوشی‘تہوار جسے ’چیلم جوشٹ‘ بھی کہا جاتا ہے کا آغاز ہوچکا ہے۔

ایک ہفتے تک جاری رہنے والی اس تہوار میں کالاش مرد و خواتین اپنے مخصوص ثقافتی لباس زیب تن کرکے موسم بہار کے آمد کی خوشی مناتے ہیں ۔ اس موقع پر ایک ہفتے تک وادی رقص و سرور اور موسیقی کی دھنوں سے گونج اٹھتی ہے۔

کالاش مرد

کالاش

کالاش چترال کے سب سے قدیم نسل کے لوگ ہیں جو اس وادی میں ہزاروں برسوں سے مقیم ہے ۔ یہاں کی مقامی لوک روایات کے مطابق پرانے زمانے میں پورے چترال بلکہ گلگت بلتستان اور کنڑو نورستان پر کالاشوں کی حکومت تھی ۔ چترال میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی یہاں کالاش قبائل دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگیں ۔ کالاش قوم کا المیہ یہ ہے کہ وہ تبدیلی مذہب کے ساتھ اپنی زبان، رسم و رواج اور ثقافت کو بھی خیر باد کہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ اسلام قبول کرنے کے ساتھ ہی چترال کے کالاش قبائل اپنی صدیو کی شناخت کو خیر باد کہتے رہے ، جس کے نتیجے میں وہ سکڑ کر موجودہ وادی کالاش کے تین گاؤں یعنی بمبوریت، رمبور اور بریر تک محدود ہو گئے ہیں۔

کالاش کا روایتی رقص

چترال میں کالاش کمیونٹی ہر دور میں مخالفین کے ٹارگٹ میں رہی یہی وجہ ہے کہ ایک زمانے میں پورے چترال اور گلگت بلتستان پر حکومت کرنے والی یہ قوم اب صرف بمبوریت، رمبور اور بریر کے تین گاؤں میں صرف چند ہزار نفوس تک محد ود ہوگئی ہے اور ان کی آبادی میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اگلے چند برسوں میں کالاش تمدن صفحہ ہستی سے مٹ سکتا ہے اور یوں دنیا کا یہ قدیم ترین تہذیب بھی تاریخ کی کتابوں تک محدود ہونے کا امکان ہے ۔

کالاش لڑکی دودھ کی بالٹی ہاتھ میں لیے

کالاش کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔؟

تاریخ میں کالاش کمیونٹی کے متعلق مختلف روایات پائی جاتی ہے ۔ ایک روایت یہ ہے کہ یہ سکندر اعظم کی اولاد ہے جب وہ دنیا کو فتح کرتے ہوئے افغانستان سے ہوکر ہندوستان داخل ہورہے تھے تو ان کی فوج کے کچھ لوگ یہاں رہ گئے یا وہ سکندر کو چھوڑ کر ان وادیوں میں فرار ہوگئے اور کالاش سکندر اعظم کے انہی یونانی فوجیوں کی اولاد ہے۔ جبکہ بعض مورخین کا خیال ہے کہ یہ قدیم ترین انڈو آرین نسل سے تعلق رکھتے ہیں اور جب سکندراعظم اس خطے میں آیا یہ اس وقت بھی یہاں موجود تھے۔ کالاش کا جدامجد جو بھی ہو مگر یہ حقیقت ہے کہ ان کی تاریخ کم و بیش تین ہزار سالوں سے زائد عرصے پر محیط ہے اور یہ ہزارہا برس تک ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان رہائش پزیر رہے اور یہاں حکومت کی۔ اگر انہیں خطہ ہندوکش کی قدیم ترین نسل کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔

ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں کے لوگ حد سے زیادہ رنگارنگ ثقافتی و ادبی روایات کے پرستار ہے اور کالاش کمیونٹی کے ہاں تو کم و بیش سال کے چاروں موسم کوئی نہ کوئی تہوار ضرورت منعقد ہوتے ہیں ،جس میں مر د وخواتین سب شریک ہوتے ہیں ، بکریاں پالنا اور موسیقی اس قو م کے رگ رگ میں پیوست ہے ، یہی وجہ ہےکہ ان کے ہر تہوار میں مختلف علامات بالخصوص بکریوں وغیرہ کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے جبکہ موسیقی ہر تہوار میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ موسیقی کے دھنوں میں مر د او رخواتین مل کر رقص کرتے ہیں ۔

باہر سے آئے ہوئے سیاح

 

کالاش کمیونٹی کے بارے میں بہت سارے غلط اور نامناسب پروپیگنڈوں کے برعکس یہ لوگ حد سے زیادہ قدامت پسند اور سادہ لوح واقع ہوئے ہیں مگر چترال اورباہر سے آنے والے سیاحوں نے اپنے سفر ناموں میں اس قوم کے متعلق من گھڑت کہانیاں گھڑ رکھی ہے جن کا حقیقت سے دور دور کا بھی تک کا بھی تعلق نہیں۔

Comments

- Advertisement -
کریم اللہ
کریم اللہ
چترال سے تعلق رکھنے والے کریم اللہ نے پشاور یونی ورسٹی سے پالیٹیکل سائنس میں گرایجویش کیا ہے۔ فری لانس صحافی‘ کالم نگار اور بلاگر ہیں اور معاشرے کے سیاسی‘ سماجی اور ثقافتی موضوعات پر بھرپور گرفت رکھتے ہیں۔