لاہور: چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثارنے سپریم کورٹ رجسٹری لاہورمیں سانحہ ماڈل ٹاؤن کےمتاثرین کوانصاف نہ ملنے پرنوٹس لیتے ہوئےآئی جی پنجاب کوحکم دیا ہےکہ تاخیرکی وجوہات اورتفصیلات عدالت میں پیش کریں۔
تفصیلات کے مطابق آج بروزاتوارسپریم کورٹ رجسٹری لاہورمیں چیف جسٹس ثاقب نثار نے سانحہ ماڈل کے متاثرین کوانصاف میں تاخیرکا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب حکومت سے تاخیر کی وجوہات اورتفصیلات طلب کرلی۔ چیف جسٹس ثاقب نثارسے سانحہ ماڈل ٹاؤن میں شہید ہونے والی خاتون کی بیٹی سے ملاقات بھی کی، اس دوران شہید خاتون کی بیٹی نے چیف جسٹس نےدرخواست کی کہ 4 سال گزرنےکےبعد بھی انصاف نہیں ملا۔
جسٹس ثاقب نثارنے متاثرہ خاتون کو تسلی دیتے ہوئے کہا میرے ہوتے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے انصاف ضرورملے گا، انہوں نے آئی جی پنجاب سے تاخیرکی وجوہات اورتفصیلات جلد ازجلد رپورٹ کی صورت عدالت میں پیش کرنے کا حکم دے دیا۔
صاف پانی پراجیکٹ
چیف جسٹس نے صاف پانی کےحوالے سے لیے گئے ازخودنوٹس کی سماعت بھی کی۔ چیف جسٹس آف پاکستان نےصاف پانی کےسی ای او کی رپورٹ مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سب کا احتساب ہوگا اورقوم کی ایک ایک پائی وصول کروں گا۔
نوٹس کی سماعت کے دوران چیف سیکرٹری پنجاب بھی عدالت میں پیش ہوئے۔ انہوں نے عدالت کو صاف پانی کی فراہمی کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیل بتاتے ہوئے پنجاب کی صاف پانی کمپنی میں4 ارب روپے کے اخراجات کا اعتراف کیا۔
چیف سیکریٹری نےعدالت کے سامنے مؤقف اختیار کیا کہ منصوبے پر 4 ارب روپے لاگت آنے کے باوجود عوام کو پینے کے لیے پانی کا ایک قطرہ بھی مسیر نہیں آیا، مذکورہ کمپنی کے معاملات بہتر ہونے کے بجائے مزید نیچے آتے جارہے ہیں۔
جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ کمپنیوں میں تقرریاں کرنے والوں سے پیسے وصول کیے جایئں گے اور تمام کمپنیوں کے سی ای اوز کو سرکاری ملازمت کے برابر تنخواہ دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ زعیم قادری کے بھائی اور ان کی بیگم کو کس اہلیت کی بنیاد پر بورڈ آف ڈائریکٹرز میں رکھا گیا ہے، جب تک عدلیہ موجود ہے کوئی سفارش یا رشوت نہیں چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے اخراجات اشتہاری مہم پر خرچ کیے گئے لیکن منصوبے کی تکمیل نہ ہوسکی، 14 لاکھ دے کر سرکاری ملازم کو نوازا جارہا ہے تاکہ کام کروایا جاسکے۔
لاہور میں آرسینک ملا پانی‘ چیف جسٹس ثاقب نثار برہم
سپریم کورٹ میں صاف پانی کے سابق سی ای اوکا کہا ہے کہ پانی کے ماہرین کو بیرون ملک سے بلانے کے لیے وزیراعلیٰ پنجاب نےاختیارات نہ ہونے کے باوجود احکامات دیئے تھے۔ ہم نے وزیراعلیٰ کے احکامات پرعمل درآمد کیا تھا۔
خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔