اسلام آباد : چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا ہے کہ سوچ سمجھ کرمقدمات لگانا شفافیت نہیں، عوام خود دیکھ کر فیصلہ کرسکتے ہیں نظام انصاف میں شفافیت ہے یا نہیں۔
تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ عوام خوددیکھ کرفیصلہ کر سکتےہیں نظام انصاف میں شفافیت ہےیانہیں، ہم نے فیصلہ کیا عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں ، عام طورپرعوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو ٹی وی پرچلائے یا یوٹیوبر دکھائے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بتایا کہ بطور چیف جسٹس سب سے پہلا کام فل کورٹ بلاناہی کیا تھا، اس سے پہلے4 سال تک ہم سب ججز ایسے ملے ہی نہیں تھے، میٹنگ میں فیصلہ کیاتھامفادعامہ کےمقدمات براہ راست نشرہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہرادارےمیں بہتری کی گنجائش ہو سکتی ہے، مجھےخودپتہ نہیں ہوتا دائیں بائیں بیٹھے ججز کیا فیصلہ کریں گے ، کیااب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہےکہ فیصلہ کیا ہوگا؟
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلےجومقدمہ دائرکیاگیاہےاس کافیصلہ بھی پہلےہوناچاہیے ، چیف جسٹس مقدمہ نہیں لگا سکتے،کمیٹی مقدمہ لگاتی ہے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کےذریعےہی مقدمےلگائےجاتےہیں، کسی بھی کیس کا فیصلہ مفروضوں کی بنیادپرنہیں ہوتا،شواہداورثبوت پرہوتا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ اگرپتہ نہیں چلتاکہ فیصلہ کیاہوگاتواسکامطلب شفافیت آئی ہے، کاز لسٹ کی منظوری پہلے چیف جسٹس دیتے تھے، پہلےکازلسٹ میں تبدیلی کااختیارچیف جسٹس کاتھا ،اب یہ اختیار ختم کردیاگیا، کازلسٹ اب چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی، مقدمات کوسماعت کیلئے مقرر کرنا رجسٹرار کا کام ہے۔
انھوں نے بتایا کہ ڈیپوٹیشن پرجوبھی لوگ آئےتھےانہیں ادارےسےرخصت کیا، کسی ادارےمیں ڈیپوٹیشن پرلوگ زیادہ عرصہ بیٹھےرہیں تویہ غیرقانونی کام ہے، ڈیپوٹیشن کی وجہ سےادارےمیں موجودافسران کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پرافسران واپس گئے تو 146 ملازمین کوترقی ملی۔
کراچی کے حوالے سے چیف جسٹس نے بتایا کہ صرف کراچی شہرمیں36وفاقی عدالتیں پھیلی ہوئی ہیں، ان عدالتوں کی عمارتیں درست ہیں نہ ہی ان کاریکارڈمحفوظ ہے، یہ عدالتیں پرائیویٹ عمارتوں میں ہیں اوران کےپیسےعوام دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ایک پروجیکٹ بن رہاتھا،ہائیکورٹ کےسامنےالیکشن کمیشن آفس ہوتاتھا، یہ زمین تقریباً7 ایکڑ پر مشتمل تھی فیصلہ ہواتھاکہ یہ زمین سپریم کورٹ رجسٹری کودی جائے، یہ پروجیکٹ6ارب روپے کا تھا، کراچی میں ایسےپروجیکٹ کی کیاضرورت تھی،ہم نےفیصلہ کیاہےکہ زمین حکومت کوواپس کردی جائے، شرط یہ عائدکی ہےکہ کراچی میں تمام36وفاقی عدالتیں ایک جگہ منتقل ہو جائیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے مزید بتایا کہ یہ پروجیکٹ ہم نےسرکارکوواپس کردی ہے، اب وفاق کی ذمہ داری ہےکہ زمین پر جلد کام کر کے تمام عدالتیں ایک جگہ منتقل کریں، سپریم کورٹ کراچی رجسٹری محفوظ جگہ پرموجودہے۔
نتخواہوں سے متعلق انھوں نے بتایا کہ سرکاری تنخواہوں سےسپریم کورٹ کے ملازمین کی تنخواہیں سب سے زیادہ ہیں، سپریم کورٹ کے ملازمین کو3گھوسٹ تنخواہیں دی گئی تھیں جوروک دی گئی ہیں، ان تنخواہوں کےپیسوں سے ہم نے سپریم کورٹ کے لیے 136 کمپیوٹر خریدے ، ہم نےبونس کےطورپرایک بنیادی تنخواہ دی ہے جو تقریباً25 ہزار روپے بنتی ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئین پاکستان میں 19اےکی شق شامل کی گئی ہے، 19اےکےمطابق معلومات تک رسائی عوام کابنیادی حق ہے، ہم جتنی معلومات عام کرینگے ہم پر جائز تنقیدبھی کی جاسکتی ہے جو اچھی بات ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک صاحب نےسپریم کورٹ کےملازمین کی تعدادسےمتعلق کیس دائرکیاتھا،اسلام آبادہائیکورٹ نے فیصلہ دیاتھاکہ ایسی معلومات سےمتعلق اسثنیٰ حاصل ہے، ہم نےاسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ کالعدم قراردیا اور معلومات فراہم کردی ہیں ، اس قسم کی معلومات فراہم کرناعوام کابنیادی حق ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے بتایا کہ ہم نےدرخواست دینےوالےصاحب کاجوخرچہ ہواہےوہ بھی واپس کردیاہے، معلومات تک رسائی ہر شہری کابنیادی حق ہے ، ہمیں خط لکھیں ہم ساری معلومات فراہم کریں گے، مفروضوں یا ذرائع سےبات کرنےکی ضرورت نہیں،خط لکھیں جواب دیں گے۔
الیکشن کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ نگراں حکومت تھی اورالیکشن نہیں ہورہےتھےتوہمارےپاس درخواست آئی، ہم نے12دن میں فیصلہ کردیا اور اختیارات سےتجاوزنہیں کیا، الیکشن کمیشن اورصدردونوں فرمارہےتھےکہ الیکشن کی تاریخ دیناان کااختیارہے، ہم نے کہا دونوں دعوے کر رہے ہیں توکوئی ایک شخص الیکشن کی تاریخ دیدیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کوحکم دیاصدرکاعہدہ بڑاہےلہٰذا آپ جاکران کےالیکشن کی تاریخ لائیں، تاخیرکرنےوالےرکاوٹیں تلاش کرلیتےہیں، لاہورہائیکورٹ کافیصلہ آیاکہ ریٹرننگ افسران عدالتوں سےلیےجائیں، الیکشن کمیشن نےدرخواست دی توہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قراردیا، الیکشن کمیشن نےوضاحت کی کہ ڈی سی صاحبان کوریٹرننگ افسران بنایا۔
انھوں نے بتایا کہ منیربھٹی کیس کےفیصلےمیں اقلیت میں تھا،رائےسےاتفاق نہیں کرتاتھا، میں نےآج تک اپنی ذات سے متعلق توہین کاکیس نہیں لیا، ایک احتجاج ہواتھاجس پرتوہین عدالت کی کارروائی کی تھی، احتجاج کرنےوالوں نے معذرت کی تومیں نےکیس واپس لیا۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کا کہنا تھا کہ گالم گلوچ نہیں ہونی چاہیے،کسی معاشرےمیں ایسانہیں ہوسکتا، مثبت دلائل دیں سراہیں گے،گالم گلوچ برداشت نہیں کریں گے، کیس پرجتنی تنقیدکرنی ہےکریں لیکن ذاتیات پرنہ جائیں۔
انھوں نے کہا کہ یہ بات درست ہےکہ پارلیمان قانون بناتی ہے، قانون بنیادی حقوق یاآئین کےبرعکس ہے تو ہمارا فرض ہےاسے روکیں ، سپریم کورٹ کے ججز پر تنقید کی گئی،ہم نےاس کیلئےسپریم جوڈیشل فورم بھی رکھا، ماضی میں سپریم جوڈیشل کونسل کےذریعےبدعنوان ججزکوبرطرف بھی کیاگیا، دوسرے کی شفافیت دیکھیں اورخودشفافیت نہ رکھیں توبات میں کچھ وزن نہیں ہوتا۔
ذوالفقاربھٹوکیس کے حوالے سے جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے کہا کہ عدالتی تاریخ میں ذوالفقاربھٹوکیس کاحوالہ بھی موجودہے، ذوالفقار بھٹو کے کیس کو186کےتحت ریفرنس کےذریعےسناگیا، سپریم کورٹ نےفیصلہ کیا ذوالفقار بھٹو کا جوکیس چلایاگیاتھاوہ قانون کےمنافی تھا، ذوالفقار بھٹو کوغلط سزامل چکی ہےلیکن یہ اعتراف کیا گیا کہ فیصلہ قانون کیخلاف تھا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ ایسےہی ہائیکورٹ کےایک جج کوغلط طریقےسےنکالاگیاتھاان کوبھی بحال کیا، وہ جج برطرف کیے گئے تھےلیکن اب فیصلے میں ریٹائرڈ کردیا گیا تاکہ لوازمات مل سکیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کہا جاتا تھا کہ آرٹیکل6کی کارروائی نہیں ہوتی،سپریم کورٹ نےآئین شکن کو قصوروار ٹھہرایا، آئین شکن کو قصور وار ٹھہرا کر آرٹیکل6کےتحت کارروائی کی گئی، کراچی میں نسلہ ٹاورکےمتاثرین کو معاوضہ دلوایا، کراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری کے اطراف بیریئرز کو ہٹوایا، مارگلہ پہاڑی نیشنل پارک کیس بھی آیا جو عوام کی اہمیت کا کیس تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ مینجمنٹ پلان سےمتعلق ایک کمیٹی بنائی جاچکی ہے، کیسزکی تعداداورتاخیرسےمتعلق بھی خامیاں موجودہیں، ججزکوبھی کیسز کی تعداد کم اور تاخیر ختم کرنی ہے، ججزکوچاہیےکہ کیسزچلائیں اورکازلسٹ کاخاتمہ کریں۔
انھوں نے بتایا کہ ایڈہاک ججزلیےگئےتاکہ کیسزکی تعدادکم کی جائے، ایڈہاک ججزنےچھٹیوں میں کام کیا ہے اور245 کیسز نمٹائے، ایڈہاک ججز نے روزانہ کی بنیاد پر 10 کیسز نمٹائے ہیں، ہم نےسال پورانہیں ہوا پھر بھی15 ہزار160 کیسز نمٹائے ہیں، ہم نےروزانہ کی بنیاد پر 44 کیسز کو نمٹایا ہے، چھٹیاں نکالی نہیں ہیں، کوشش ہےزیادہ سےزیادہ کیسز نمٹائیں۔
جسٹس قاضی فائزعیسی نے کہا کہ شریعت اپیلٹ بینچ میں سپریم کورٹ کے3اور2عالم ججزہونالازمی ہے، ہمارے پاس ایک عالم جج کی کمی تھی تو ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ذمہ داری قبول کی، شریعت اپیلٹ بینچ کوفعال کردیا ہے۔