تازہ ترین

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

پاکستانیوں نے دہشت گردوں کے ہاتھوں بہت نقصان اٹھایا، میتھیو ملر

ترجمان امریکی محکمہ خارجہ میتھیو ملر نے کہا ہے...

فیض حمید پر الزامات کی تحقیقات کیلیے انکوائری کمیٹی قائم

اسلام آباد: سابق ڈائریکٹر جنرل انٹر سروسز انٹلیجنس (آئی...

افغانستان سے دراندازی کی کوشش میں 7 دہشتگرد مارے گئے

راولپنڈی: اسپن کئی میں پاک افغان بارڈر سے دراندازی...

‘ سعودی وفد کا دورہ: پاکستان میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری ہوگی’

اسلام آباد : وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے...

کھلونوں کی شکایت

بچپن میں ہم سب ہر پریشانی، غم اور ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ بچّوں کو فکر ہوتی ہے تو صرف اپنے کھیل کود کی اور نئے نئے کھلونے جمع کرنے کی۔

اردو ادب میں بچّوں کی تفریح کے ساتھ ان کی تعلیم و تربیت اور ان میں احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کے لیے ادیبوں نے کہانیاں لکھی ہیں جن میں سے ایک ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

یہ کہانی والدین بچّوں کو پڑھ کر سنا سکتے ہیں یا جو بچّے اردو پڑھنا جانتے ہیں، انھیں اے آر وائی کی ویب سائٹ پر خود اس کہانی کو پڑھنے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ سادہ زبان اور عام فہم انداز میں لکھی گئی یہ کہانی نہایت دل چسپ ہے اور بچّوں میں شعور اور احساسِ ذمہ داری پیدا کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔

اس کا عنوان ہے ’’کھلونوں کی شکایت۔‘‘ آئیے کہانی پڑھتے ہیں۔

’’یااللہ! میں اور کتنے دن یوں پلنگ کے نیچے گندی سندی پڑی رہوں گی؟‘‘ نوری نے آزردگی سے سوچا۔

ابھی پچھلے دنوں ہی زینب نے اس کی شادی کا کھیل کھیلا تھا۔ خوب صورت لال رنگ کا لہنگا اور سنہری بیل والا دوپٹہ پہنا کر اس کو دلہن بنایا تھا۔ سَر پر ستاروں کا ٹیکا اور گلے میں موتیوں کا ہار تھا۔

زینب کی ساری سہیلیوں نے اس کی تعریفیں کی تھیں اور اب کوئی اس کا یہ حلیہ دیکھے۔ دوپٹہ غائب، لہنگا دھول مٹی میں اٹا اور ٹیکا سنہری بالوں میں الجھا اور گلے کا ہار ٹوٹ کر موتی ادھر ادھر پڑے تھے، لیکن زینب کو کچھ خیال ہی نہیں تھا کہ اس کی گڑیا کہاں اور کس حال میں ہے؟

غم کے مارے نوری کی آہ نکل گئی۔ ’’کیا ہوا نوری کیوں رو رہی ہو؟‘‘ پلنگ کے نیچے مزید اندر کی طرف پڑے گھوڑا گاڑی کے گھوڑے نے نوری سے پوچھا۔ اسی گھوڑے پر دلہن بنا کر نوری کو بٹھا کر لایا گیا تھا۔ اس وقت اس گھوڑا گاڑی کی شان دیکھنے والی تھی۔ پچھلی نشست پر سرخ کپڑا بچھا تھا، سامنے گھوڑا گاڑی کا کوچوان ہیٹ لگائے بیٹھا تھا۔ چاروں پہیے سلامت تھے۔

زینب کے چھوٹے بھائی بلال نے دلہن کو احتیاط سے سوار کرایا اور زینب کے اس بستر کے پاس غالیچے پر گھوڑا گاڑی کو آہستہ آہستہ لے کر آیا۔

یہ غالیچہ دراصل شادی ہال بنایا گیا تھا۔ زینب اور بلال دونوں نے اپنے اپنے دوستوں اور سہیلیوں کو اس شادی میں بلایا تھا، جو بہت خوشی اور انہماک سے دلہن کی گھوڑا گاڑی کو آتے دیکھ رہے تھے۔

واہ کیا شان دار استقبال ہوا تھا۔ ایک طرف زینب کی سہیلیاں استقبالیہ گیت گارہی تھیں اور دوسری طرف بلال کے دوستوں نے بانسری، ڈف، پیپڑی (منہ سے بجانے والا کھلونا) جو کچھ میسر تھا سب کے ساتھ دلہن کا استقبال کیا۔

ایک زبردست شور اور ہنگامہ تھا۔ اس شور و ہنگامے کے درمیان زینب نے اپنی گڑیا دلہن نوری کو احتیاط سے گھوڑا گاڑی سے اتارا اور آہستہ آہستہ چلا کر چھوٹی میز پر بنائے گئے اسٹیج پر لے جاکر صوفے پر بٹھا دیا۔ یہ چھوٹے چھوٹے گلابی گدّوں والے صوفے نوری کو بہت پسند تھے اور پھر یوں سب کے سامنے دلہن بن کر بیٹھنا بھی کیسی شان دار بات تھی۔

زینب کی گڑیا نوری بہت معصوم شکل والی گڑیا تھی، جس کے سنہرے بال اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اس دن لال گلابی اور سنہری کر دوپٹہ پہن کر ستارے والا ٹیکا اور موتیوں کا ہار پہن کر تو نوری بہت ہی پیاری لگ رہی تھی۔ گلابی گدّیوں والے صوفے پر بیٹھ کر وہ سب کو دیکھ رہی تھئ، لیکن یہ مزے کا دن کتنی جلدی گزر گیا۔ اس کے بعد زینب کو ہوش ہی نہیں آیا کہ اس کی گڑیا کہاں ہے اور کس حال میں ہے۔

’’سچ ہے خوشی کے لمحے بہت جلدی گزر جاتے ہیں۔‘‘ نوری نے ایک سسکی لے کر گھوڑا گاڑی کے گھوڑے سے کہا۔

’’ہاں! ٹھیک کہا۔ دیکھو ابھی میری گاڑی کہاں ہے؟ مجھے نہیں پتا۔ میری ایک ٹانگ میں موچ آگئی ہے اور اب میں ایسی حالت میں پڑا ہوں۔ نہیں معلوم کتنے دن تک مجھے ایسے ہی پڑے رہنا ہوگا۔‘‘ گھوڑا گاڑی سے الگ پڑے گھوڑے نے اداسی سے کہا۔

’’ارے بھئی تم لوگ تو ابھی سے گھبرا گئے۔ مجھے دیکھو میں تو پچھلے پورے ماہ سے ایسا بے حال پڑا ہوں۔‘‘ پلنگ کے دوسرے کونے میں پڑا رنگ برنگا لٹّو بھی بول اٹھا جو بہت دیر سے ان دونوں کی باتیں سن رہا تھا۔

’’میرے ساتھ تو ہر بار ایسا ہی ہوتا ہے۔ بلال مجھے چابی دے کر زور زور سے گھماتا ہے اور جب میں نیچے کہیں جاکر پھنس جاتا ہوں تو وہ مجھے بھول جاتا ہے، کبھی پلنگ کے نیچے، کبھی الماری اور کبھی صوفے کے نیچے پڑے پڑے بے حال ہوتا رہتا ہوں۔‘‘ لٹّو نے بھی اپنی شکایت سنائی۔

’’پھر تم کیسے باہر نکلتے ہو؟‘‘ نوری نے ہمدردی سے پوچھا۔

’’میں بس اسی صورت میں باہر آتا ہوں جب امی جان ماسی کو کہتی ہیں کہ آج سب چیزوں کو ہٹا کر جھاڑو دینا۔‘‘

’’ہائے ہائے ہماری بھی کیا اوقات ہے؟‘‘ لٹّو نے مایوس ہو کر کہا۔

نوری بولی: ’’اوقات تو ٹھیک ہی ہے، بس ہمیں شکایت ہے بچّوں سے کہ وہ ہمارے ساتھ کھیلتے تو ہیں لیکن ہمارا بالکل خیال نہیں رکھتے۔ ہمیں سنبھالتے نہیں ہیں۔ ادھر ادھر پھینک دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں۔ یوں ہم ایسے ہی دھول مٹّی میں رُلتے رہتے ہیں۔‘‘

’’امی جان نے بھی زینب کو کئی دفعہ سمجھایا ہے، لیکن یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آتی۔‘‘ نوری نے افسوس سے کہا۔

’’کیا بچّوں کو ہماری یاد بالکل بھی نہیں آتی؟‘‘ پاؤں کی موچ سے پریشان گھوڑے نے حسرت سے کہا۔

’’جب ہم بے جان کھلونوں کو بچّوں کی یاد آتی ہے تو بچّے بھی ضرور ہم کو یاد کرتے ہوں گے بلکہ کرتے ہیں۔ ماسی جب بھی مجھے باہر نکالتی ہیں تو بلال بہت خوش ہوتا ہے۔ مجھے صاف ستھرا کر کے دوبارہ کھیلتا ہے۔‘‘ لٹّو بولا۔

’’اچھا تو زینب بھی مجھے یاد کرتی ہوگی؟‘‘ نوری گڑیا نے ذرا حیرت سے پوچھا۔

’’ہاں کیوں نہیں، دیکھنا جب وہ تم کو دوبارہ دیکھے گی تو کتنا خوش ہوگی۔‘‘ لٹّو نے تسلّی دی۔ یہ سن کر نوری گڑیا خوشی سے مسکرائی۔ گھوڑے گاڑی کے گھوڑے نے بھی حوصلہ پکڑا۔

’’اللہ کرے کوئی ہماری شکایت بچّوں تک پہنچا دے کہ وہ کھیلنے کے بعد ہم کو سنبھال کر رکھا کریں تاکہ وہ بھی خوش رہیں اور ہم بھی۔‘‘

(مصنّف: نامعلوم)

Comments

- Advertisement -