تازہ ترین

بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز پر فکس ٹیکس لگانے کا فیصلہ

پشاور: خیبرپختونخوا حکومت نے بیوٹی پارلرز اور شادی ہالز...

چمن میں طوفانی بارش، ڈیم ٹوٹ گیا، مختلف حادثات میں 7 افراد جاں بحق

چمن: بلوچستان کے ضلع چمن میں طوفانی بارشوں نے...

ملک کو آگے لے جانے کیلیے تقسیم ختم کرنا ہوگی، صدر مملکت

اسلام آباد: صدر مملکت آصف علی زرداری کا کہنا...

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے 4 کسٹمز اہلکار شہید

ڈی آئی خان میں نامعلوم افراد کی فائرنگ سے...

صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کریں گے

اسلام آباد : صدر آصف زرداری آج پارلیمنٹ کے...

بچوں کی شرح پیدائش میں تشویشناک حد تک کمی

بیجنگ : چین جسے دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک کا اعزاز بھی حاصل ہے، کورونا وائرس کے بعد اب وہاں ایک نئی مصیبت نے ڈیرے ڈال لیے۔

اس حوالے سے ذرائع کے مطابق تعلیم کے ہوشرُبا اخراجات اور پرورش کے مسائل کی وجہ سے چین میں پہلے ہی بچوں کی شرح پیدائش بہت کم تھی لیکن اب کورونا وبا کی وجہ سے شرح میں مزید کمی واقع ہوئی ہے۔

چین کے نیشنل ہیلتھ کمیشن کی تصدیق شدہ خبر کے مطابق کورونا وائرس نے ملک میں شادیوں اور بچوں کی پیدائش کے منصوبوں پر بھی گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

غیرملکی خبر رساں ادارے روئٹرز کو لکھے گئے ایک خط میں کمیشن نے یہ بھی تحریر کیا کہ چین میں نوجوانوں کی شہری علاقوں کی طرف منتقلی، بہتر روزگار کے حصول کے لیے اعلیٰ تربیت پر وقت صرف کرنے، اپنے پیشے سے وابستگی اور بہتر کام کا ماحول بھی آبادی میں اضافے کی راہ میں رکاوٹوں کے اسباب میں شامل ہیں۔

اس حوالے سے ماہرین کا کہنا ہے کہ رواں برس ملک میں نئے پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ریکارڈ حد تک کم ہو گی ہے۔

ماہرین کی پیش گوئیاں اس امر کی طرف نشاندہی کرتی ہیں کہ بچوں کی پیدائش میں کم از کم دس ملین کی کمی واقع ہوگی جبکہ 2021 میں نئے پیدا ہونے والے بچوں کی کُل تعداد دس اعشاریہ چھ ملین تھی جو کہ 2020 کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ پانچ فیصد کم تھی، چین میں شادی شدہ جوڑوں کو اب تین بچوں کی پیدائش کی اجازت ہے۔

گزشتہ برس عوامی جمہوریہ چین میں فی کس شرح پیدائش 1.16 فیصد رہی، جو دنیا کے تمام دیگر ممالک کے مقابلے میں سب سے کم شرح پیدائش تھی۔

ایک بچہ پالیسی
چین میں 1980ء سے 2015 ء تک ‘ون چائلڈ پالیسی‘ یا ایک بچہ پالیسی پر سخت عمل درآمد کیا جاتا رہا۔ رفتہ رفتہ بیجنگ حکومت کو یہ ادراک ہوا کہ بچوں کی پیدائش پر اس سخت کنٹرول سے چین کی آبادی کے سُکڑنے کے خطرات بہت زیادہ پیدا ہوگئے ہیں۔

جس کا مطلب ملک میں معاشی بدحالی کا پیدا ہونا ہے کیونکہ بچوں کی پیدائش کی شرح میں کمی ملک میں بوڑھے افراد کی تعداد میں اضافے کا سبب بنتی ہے اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہمیشہ نوجوانوں کو بوڑھے افراد کی مالی اعانت اور ان کی نگہداشت کرنا پڑتی ہے۔

چینی حکام کو ان مسائل سے نمٹنے کے لیے نوجوانوں کو ایسی سہولیات فراہم کرنا پڑیں، جو انہیں ایک سے زیادہ بچہ پیدا کرنے کی ترغیب دلائیں۔ بہتر ہیلتھ انشورنس، زچگی کے بعد طویل چھٹیاں، تیسرے بچے کے لیے اضافی”بینیفٹ‘یا اضافی رقم وغیرہ متعارف کروائی گئیں۔

دوسری جانب امریکہ کی آبادی اس کے مقابلے میں مثبت طریقے سے ترقی پر ہے، یہ انکشاف چین کے ایک مرکزی بینک کے ایک ورکننگ پیپر سے ہوا ہے۔

اس دستاویز میں اقوام متحدہ کی پیشگوئیوں کا حوالہ دیا گیا ہے، جس کے مطابق امریکہ کی آبادی میں 2019 تا 2050ء تک 15 فیصد اضافہ ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب چین کی آبادی کے 2.2 فیصد تک سُکڑ جانے کے امکانات ہیں، چینی مرکزی بینک نے انتباہ کیا ہے کہ ملک کی تعلیم اور تکنیکی ترقی یہاں کی آبادی کے سکڑنے کا ازالہ نہیں کرسکتی۔

Comments

- Advertisement -