جمعرات, نومبر 13, 2025
اشتہار

سی پیک فیز 2 اور پانچ نئی راہ داریاں

اشتہار

حیرت انگیز

جنوب ایشیائی ممالک میں ان دنوں سفارتی محاذ پر زبردست کشمکش دیکھی جارہی ہے۔ بھارت امریکا سے منہ موڑ کر دوبارہ چین سے دوستی کا خواہش مند ہے جس کا اندازہ بھارتی ذرایع ابلاغ اور سماجی رابطے کے پلیٹ فارمز سے ہوتا ہے جہاں نریندر مودی کی چین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس میں سرگرمیوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا رہا۔ مگر بھارت کی یہ خوشی اس وقت کافور ہوگئی جب شہباز شریف ایک یادگاری تقریب میں چینی وزیراعظم اور خطّے کے دیگر اہم ممالک کے سربراہان کے ساتھ پہلی صف میں نظر آئے۔

یہ دراصل چین میں وکٹری ڈے پر منعقدہ ایک تقریب تھی اور اس کا انعقاد دوسری جنگِ عظیم میں جاپان کے ہتھیار ڈالنے کی 80 ویں یادگاری تقریب کے طور پر کیا گیا تھا۔ اس تقریب میں 26 سربراہان مملکت شریک تھے جن میں پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف پہلی صف میں چینی صدر شی، روسی صدر ولادی میر پوتن اور شمالی کوریا کے کم جان کے ساتھ کھڑے تھے۔ یہ صف بندی دنیا کے لیے ایک پیغام ہے کہ پہلی صف میں موجود یہ سربراہانِ مملکت دراصل چار ایٹمی طاقت بھی ہیں جن کی سرحدوں پر جنگی صورت حال بھی ہے۔ اس صف بندی اور شہباز شریف کی پہلی صف میں موجودگی سے پاکستان کے بدخواہوں کو جان لینا چاہیے کہ خطّہ میں پاکستان کی کیا اہمیت ہے اور چین جیسے دوست ملک اور ایک بڑی معیشت کی نظر میں ہمارا کیا مقام ہے۔

پاکستان کے اندر اور باہر یہ عام تاثر تھا کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک)، جو بیلٹ اینڈ روڈ اقدام کا سب سے اہم منصوبہ ہے، اس کے حوالے سے چین پہلے کی طرح پُرجوش نہیں رہا اور اسی لئے سی پیک کی رفتارسست ہوگئی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ اگلے مرحلے کے لئے چین اور پاکستان کے درمیان معاملات آگے بڑھتے نہیں دکھائی دیتے۔ مگر چین نے اپنے بڑھتے ہوئے عالمی اثر و رسوخ کے ساتھ اس بات کا اعلان کیا ہے کہ وہ خطے میں پاکستان کو ایک اہم شراکت دار سمجھتا ہے۔ اور پاکستان سے عسکری شعبہ میں معاونت اور اشتراک کے ساتھ ساتھ اس کی معاشی ترقی کے ذریعے خطّے کی معیشت کو بہتر بنانے کا خواہش مند بھی ہے۔ اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم پاکستان نے چین کے اپنے طویل ترین دورے میں سی پیک فیز ٹو کا اعلان بھی کر دیا ہے۔

وزیر اعظم کے اس دورے سے قبل مجھے سی پیک فیز ٹو کے خالق اور اسے آگے بڑھانے والے وزیر برائے پلاننگ کمیشن احسن اقبال سے ملنے کا موقع ملا۔ بزنس اور کامرس کی کراچی میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کی تنظیم کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹ (سیج) کے صدر کی حیثیت سے ایک وفد کے ہمراہ اسلام آباد میں پلاننگ کمیشن کا دورہ کیا تو وہاں سی پیک فیز ٹو پر ان سے تفصیل سے بات ہوئی۔

چین کے ساتھ سی پیک میں پاکستان کی ترقی اور باہمی تعاون اور سرمایہ کاری کے لئے حکمت عملی کو تبدیل کیا گیا ہے۔ چونکہ پاکستان اپنی معاشی مشکلات کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاشی بحالی اور اصلاحات پروگرام پر عمل کر رہا ہے۔ آئی ایم ایف پر مغربی اثر و نفوذ کی وجہ سے پاکستان کے چین سے لئے گئے قرضوں پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کی موجودہ معاشی صورت حال ایسی ہے کہ وہ بھاری قرضوں کی ادائیگی کا متحمل بھی نہیں ہوسکتا۔ سی پیک کے قرضے کی ادائیگی بھی پاکستان کے لیے مشکل ہورہی ہے۔ اس لئے سی پیک میں اب براہ راست ریاستی ضمانت کے قرضوں کے بجائے پاکستان کو معاشی اور اقتصادی طور پر مستحکم کرنے کے لئے چین کے نجی سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کو متحرک کیا جارہا ہے۔

احسن اقبال کا کہنا تھا کہ اڑان پاکستان پروگرام میں آئندہ دس سال ترقی کے لئے فائیو ای پالیسی یعنی ایکسپورٹ، ای پاکستان، انوائرمنٹ، انرجی اور ایکویٹی کو ہدف بنایا گیا ہے۔ اور سی پی کے فیز ٹو کو بھی اسی سے منسلک کر کے مرتب کیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جن پانچ نئی راہدریوں کا ذکر اعلامیے میں کیا گیا ہے۔ وہ بھی انہی 5Es(فائیو ایز) سے مطابقت رکھتے ہیں۔ یہ پانچ نئی راہدریاں کوئی سڑک نہیں بلکہ پانچ شعبہ جات ہیں جس میں چین کے تعاون سے پاکستان کو ترقی کی جانب گامزن کیا جائے گا۔ ان راہداریوں میں ترقی کی شاہراہ، پاکستانیوں کے معیار زندگی کو بہتر بنانا، جدید معاشی اور سماجی نظام، زراعت میں ترقی، اور علاقائی رابطوں کو بڑھانا شامل ہے۔

چین کی موجودہ قیادت اور صدر شی کے دنیا میں ترقی اور چین کو اس ترقی کا مرکز بنانے کے لئے اعلان کردہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں ابتدا میں پیش آنے والی مشکلات اور مغربی دنیا کے پروپیگنڈے کے بعد چین نے حکمت عملی کو تبدیل کیا ہے۔ اسی لئے سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام شروع کرنے سے قبل دونوں ملکوں کے ماہرین، سول سوسائٹی، اور صحافیوں کے ساتھ بات چیت اور تبادلہ خیال کیا ہے۔ پاکستان کی معاشی صورت حال اور ترقی میں حائل رکاوٹوں کا جائزہ لینے کے بعد ترقی کے لئے پانچ اہداف یا راہدریوں کو منتخب کیا گیا ہے۔

پاکستان چین کے تعاون میں پاکستان کی اقتصادی ترقی، ٹیکنالوجی اور جدت پر مبنی صنعتوں کے قیام، سماجی ترقی کے لئے تخفیفِ غربت، تعلیم، اور صحت کے شعبوں میں ترقی، پائیدار ترقی کے لئے توانائی کے نئے ماڈلز پر کام اور پاکستان کو عالمی سپلائی چین میں شامل کرنے، برآمدات بڑھانے کے لئے مختلف شعبہ جات پر کام کیا جائے گا۔

پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کی بحالی سے دنیا کو یہ بھی پیغام دیا جارہا ہے کہ چین کی موجودہ قیادت اپنے بیلٹ اینڈ روڈ پروگرام کو اگے بڑھانے کے لئے کوشاں ہے۔ جس کے لئے چین لچک دار سوچ اور حکمت عملی کو اپنا رہا ہے۔ سی پیک کے فیز ٹو میں افغانستان کو بھی شامل کر لیا گیا ہے جس سے یہ منصوبہ خطّے میں رابطوں کو توسیع دینے کی جانب اشارہ ہے۔ اور توقع کی جارہی ہے کہ جلد ایران بھی سی پیک کا حصہ بنے گا جس سے چاروں ملکوں کے درمیان معاشی اور تجارتی روابط میں اضافہ ہوگا اور یہ علاقائی سطح پر ترقی کا موجب ہوگا۔

+ posts

راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

اہم ترین

راجہ کامران
راجہ کامران
راجہ کامران سینئر صحافی ہیں۔ کونسل آف اکنامک اینڈ انرجی جرنلسٹس (CEEJ) کے صدر ہیں۔ ان کا ٹوئٹر ہینڈل rajajournalist@ ہے۔

مزید خبریں