تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

چترال میں ایک اور حوا کی بیٹی نے خودکشی کرلی

چترال:شمالی علاقہ جات کے حسین علاقے چترال ٹاؤن میں ایک اور23 سالہ لڑکی نے گلے میں پھندا ڈال کر خودکشی کرلی ہے، خودکشی کی فوری وجہ تاحال معلوم نہ ہوسکی۔ گزشتہ تین ماہ میں یہ بیسویں خودکشی ہے۔

چترال پولیس کے مطابق ہون فیض آباد کے رہائشی سفینہ بی بی دختر شیرین خان نے گلے میں اپنے گھر میں پنکھے کے ساتھ پھندا ڈال کر خودکشی کرلی۔ چترال پولیس نے زیر دفعہ 176 ضابطہ فوجداری تفتیش شروع کردی اور تحقیقات مکمل ہونے پر مقدمہ درج کی جائے گی۔

سفینہ بی بی کی لاش کو پوسٹ مارٹم کرنے کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرز ہسپتال چترال لایا گیا ، ضروری کاروائی کرنے کے بعد لاش کو ورثا ء کے حوالہ کیا گیا۔ آزاد ذرائع کے مطابق پچھلے تین ماہ میں خودکشیوں کا یہ بیسواں (20) واں واقعہ ہے جس میں اکثر نوجوان لڑکیاں ہی خودکشی کرتی ہیں۔ اس مہینے کے پہلے ہفتے میں پانچ طلباء طالبات نے اس وقت خودکشی کی تھی جب ان کے انٹر میڈیٹ کے امتحان میں نمبر کم آئے تھے۔

اس سے قبل ماہ اپریل میں جمع کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق چترال میں چھ ماہ میں 22 خواتین نے خود کشی کی تھی جن میں سے زیادہ تر نوجوان لڑکیاں تھیں۔

واضح رہے کہ پورے چترال میں کسی بھی ہسپتال میں کوئی سائیکاٹرسٹ، ماہر نفسیات اور دماغی امراض کا کوئی ڈاکٹر موجود نہیں ہے۔ اور نہ ہی چترال میں خواتین کے لئے کوئی دارلامان یعنی شیلٹر ہاؤ س نہیں ہے جہاں نا مساعد گھریلو حالات کی صورت میں وہ پناہ لے سکیں۔

چترال کے نوجوان طبقے اوربالحصوص خواتین میں تشویش ناک حد تک بڑھتی ہوئی رحجان پر والدین نہایت پریشان ہیں اورعوام مطالبہ کرتے ہیں کہ اس کی تحقیقات کے لیے ماہرین کی ٹیم بھیجی جائے تاکہ اس کا اصل وجہ معلوم کرکے اس کی روک تھام ہوسکے

چترال کے خواتین میں خودکشیوں کی بڑھتی ہوئی رحجان کو کم کرنے کے لیے تاحال حکومتی یا غیر سرکاری ادارے نے کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا ہے تاہم سابق ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر منصور امان نے خواتین کے لیے تھانہ چترال میں ایک زنانہ رپورٹنگ سنٹر کھولا تھا جس میں زنانہ پولیس ڈیوٹی کررہی ہیں۔

Comments

- Advertisement -