تازہ ترین

پاکستان نے انسانی حقوق سے متعلق امریکا کی رپورٹ مسترد کردی

اسلام آباد: پاکستان نے امریکی محکمہ خارجہ کی انسانی...

وزیراعظم کی راناثنااللہ اور سعد رفیق کو بڑی پیشکش

اسلام آباد: وزیراعظم شہباز شریف اور اسحاق ڈار نے...

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پروٹوکول واپس کر دیا

چیف جسٹس آف پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے چیف...

کاروباری شخصیت کی وزیراعظم کو بانی پی ٹی آئی سے ہاتھ ملانے کی تجویز

کراچی: وزیراعظم شہباز شریف کو کاروباری شخصیت عارف حبیب...

مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے ، چیف جسٹس

کراچی : چیف جسٹس جسٹس میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے ، جن لوگوں نے کوتاہی برتی انہیں نہیں بخشا جائے گا۔

تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں سمندری آلودگی اور شہروں میں گندے پانی کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں4رکنی لارجربینچ کر رہا ہے، بینچ میں جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس فیصل عرب،جسٹس سجادعلی شاہ شامل ہیں۔

سماعت کے دوران چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ معاملہ انسانی زندگیوں کا ہے، رات 12بجےتک بھی سماعت کرناپڑی توکرینگے، شہریوں کو گندہ پانی مہیا کیا جارہا ہے، صاف پانی فراہم کرنا سندھ حکومت کی ذمہ داری ہے، واضح کرتے ہیں، عدالت کےپاس توہین عدالت کااختیارہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ دسمبر سے آج 23دسمبر تک کیا کام کیا گیا، عدالت کوحلف نامےپرٹائم فریم چاہیے، اسپتال،میونسپل اورصنعتی فضلےسےمتعلق بتایاجائے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ آج مجھ سے جہازمیں لوگوں نےپوچھا، کیاآپ جس مسئلےکیلئےکراچی جارہےہیں وہ مسئلہ حل ہوسکےگا۔

چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ چیف سیکرٹری صاحب،یہ مسئلہ الیکشن سےپہلےہی حل ہوناہے، عدالت کوصرف یہ بتائیں کون سا کام کب اور کیسےہوگا، کراچی میں45لاکھ ملین گیلن گندہ پانی سمندرمیں جارہاہے۔

چیف سیکرٹری سندھ نے  ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت دیگرمنصوبوں کی رپورٹ پیش کردی  

چیف سیکرٹری سندھ رضوان میمن نے ٹریٹمنٹ پلانٹس سمیت دیگرمنصوبوں کی رپورٹ عدالت میں پیش کردی، رپورٹ کے مطابق کراچی میں550ملین گیلن پانی یومیہ کینجرجھیل جیل سےآتاہے جبکہ کراچی میں100ملین گیلن پانی یومیہ حب ڈیم سےآتا۔

چیف جسٹس نے چیف سیکرٹری سے استفسار کیا کہ سیکرٹری صحت عدالت میں موجودہیں، جس پر فضل اللہ پیچوہو نے جواب میں کہا کہ جی میں کورٹ میں موجودہوں۔

سپریم کورٹ نےسیکریٹری ہیلتھ سےمیڈیکل کالجزکی فہرست طلب کرلی اور کہا کہ بتایا جائےکون سےمیڈکل کالجزپی ایم ڈی سی سےرجسٹرڈہے، واٹربورڈکی تیارکردہ ویڈیوبھی عدالت میں دکھائی گئی۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے یمارکس میں کہا کہ پانی کی قلت سےواٹرمافیامضبوط ہوتی ہے، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ کا کہنا تھا کہ پانی کی چوری کی مستقل نگرانی کررہے ہیں، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ آپ کام کرناچاہیں تومخیرحضرات بھی مل جائیں گے، کام کےحوالےسےآپ کی ہمت نظرآنی چاہیے۔

ایم ڈی واٹربورڈ ہاشم رضا نے عدالت کو بتایا کہ کینجھرجھیل سےآنےوالاپانی صاف ہے، لائنوں میں غیرقانونی کنکشن اورلیکج گندےپانی کی وجہ ہے، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کینجھرجھیل سےصاف پانی آنےکی ضمانت دے سکتےہیں، مطلب کینجھر جھیل چیک کرائیں تو پانی صاف ہوگا۔

پانی دیتےنہیں ٹینکرزچلا کرکمائی کادھندہ چل رہاہے، چیف جسٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ پانی سےصرف مٹی نکالنافلٹریشن نہیں، کیایہ پانی پاک اورپینےکےقابل ہوتاہے، ہاشم رضا کا کہنا تھا کہ کراچی کے30 فیصد علاقے واٹربورڈکےسسٹم میں شامل نہیں، ڈی ایچ اےاورکنٹونمنٹ کی ذمہ داری ہےمگروہاں ٹینکرز چلتے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کل رات بھی باتھ آئی لینڈمیں ٹینکرسےپانی لیاگیا،جسٹس فیصل عرب نے اپنے ریمارکس میں کہا باتھ آئی لینڈتوکنٹونمنٹ ایریامیں شامل نہیں، جس پر ہاشم رضا نے بتایا کہ باتھ آئی لینڈکےایم سی کےتحت ہےلیکن آخری حدودمیں ہے۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا کہ مسئلہ یہ ہےکہ آپ ہرمسئلےکاجوازطےکربیٹھیں ہی، واٹرٹینکرزاورہائیڈرنٹس ختم کیوں نہیں کرسکتے، کیاآپ کابندہ ماہانہ پیسےوصول نہیں کرتا، پانی دیتےنہیں ٹینکرزچلا کرکمائی کادھندہ چل رہاہے۔

جن لوگوں نےکوتاہی برتی انہیں نہیں بخشاجائےگا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ جن لوگوں نےکوتاہی برتی انہیں نہیں بخشاجائےگا، چیف سیکریٹری بتائیں کس کی کتنے درجے تنزلی کرنی ہیں ، بریک کے بعد کارروائی کا حکم دینگے، حلف نامہ دیا گیا تھا کہ سیوریج ٹریٹمنٹ پلانٹ بنایا جائیگا۔

عدالت نے کہا کہ پلانٹ کیلئےپروجیکٹ جون2018میں مکمل کرنےکاکہاگیاتھا، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پلانٹ سے متعلق کوئی پیشرفت نظرنہیں آرہی، 8 ارب کا پروجیکٹ اب36ارب تک پہنچ گیا۔

ہمیں نتائج چاہئیں، جواب دیئے بغیر چیف سیکریٹری،ایم ڈی واٹربورڈ کو جانے نہیں دینگے، چیف جسٹس

چیف جسٹس میاں ثاقب نثارنے استفسار کیا کہ ہمیں نتائج چاہئیں، جواب دیئے بغیر چیف سیکریٹری،ایم ڈی واٹربورڈ کو جانے نہیں دینگے۔

سپریم کورٹ رجسٹری میں سماعت چائے کے وقفے کے بعد دوبارہ شروع ہوئی تو چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا ٹینکرمافیاپانی بیچتاہےاورکمائی ہورہی ہے، جہاں واٹربورڈکی لائن نہیں مفت پانی کےٹینکرپہنچائیں، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے کہا کہ ڈپٹی کمشنرکی وجہ سےپانی مفت فراہم نہیں کیاجاتا۔

جسٹس میاں ثاقب نثار نے ایم ڈی واٹر بورڈ سے مکالمے میں کہا کہ دن لگے یا رات لگےکام کرکےدکھائیں، بھینسوں کافضلہ نہروں میں چھوڑاجارہاہے، ہیپاٹائٹس سی بڑھ رہا ہےکبھی آپ نے غورکیا، جس پر ایم ڈی واٹربورڈ نے کہا کہ عدالت کی ہدایت کے مطابق ہم کام کررہےہیں۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ہماری ہدایت سے پہلےآپ لوگ سورہےتھے،جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ نظر آرہا ہے پانی کی لائنوں کی صورتحال خراب ہے، آپ نے اب تک کیا کام کیا ہے۔

جسٹس فیصل عرب نے اپنے ریمارکس میں کہا بجٹ میں رقم جاری ہوتی ہےمگرکام نہیں ہوتا، 10 سال بعد پائپ لائنیں تبدیل ہوتی ہیں سب جانتےہیں، ایم ڈی واٹر بورڈ ہاشم رضازیدی نے بتایا کہ ہم سنجیدگی سےکام کررہےہیں، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ مجھےآپ کی سنجیدگی آپ کی باتوں سےنظرنہیں آرہی، سنجیدگی کاکام سےپتہ چلےگا۔

چیف سیکریٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھےبتایانہ جائےکہ کام کب ہوگا، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ چیف سیکریٹری کو اور کوئی کام کرنے نہیں دوں گا، جب تک مجھےبتایانہ جائےکہ کام کب ہوگا، پچھلی مرتبہ میں پورٹ گرینڈ گیا جہاں کچرے کے ڈھیر تھے، آخر یہ کچراکون اٹھائےگا، کیا پوری قوم کو مفلوج کرناچاہتےہیں۔

ایم ڈی واٹربورڈ نے عدالت کو بتایا کہ کراچی میں ساڑھے4ہزارٹینکر یومیہ چلتے ہیں، جس پر جسٹس عمربندیال نے ریمارکس دیئے یہ تعداد کہیں زیادہ ہے، زائد نرخ پر فروخت کی شکایات ہیں،جسٹس فیصل عرب نے مزید کہا کہ میں کراچی میں پیداہواہوں،پانی کیسے ملتاہے معلوم ہے، پانی کی لائنیں25،20سال سے تبدیل نہیں ہوئیں۔

چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ پانی کی فروخت ایک کاروبار بن چکاہے، میرے گھرمیں پانی آتاہوتومیں پانی کیوں خریدوں گا، پانی کی فراہمی کا کوئی نظام نہیں، واٹر بورڈ کی غفلت ہے۔

ایم ڈی واٹربورڈ نے بتایا کہ ہائیڈرنٹس کےذریعے2.5فیصدپانی فراہم کیاجاتاہے، ملین گیلن یومیہ پانی ٹینکرزکےذریعےسپلائی ہوتاہے، جس پر جسٹس سجادعلی شاہ نے استفسار کیا کہ ایک ٹینکرمیں کتنےہزارگیلن پانی دیا جاتاہے۔

ایم ڈی واٹر بورڈ نے عدالت کو بتایا کہ ایک ٹینکرمیں 3ہزارگیلن پانی کی گنجائش ہوتی ہے، یہ اندازہ لگایاگیاکبھی کتنےہزارٹینکر روزانہ استعمال ہوتےہیں، مردم شماری کے مطابق شہرکی آبادی 16ملین ہے، 18 ملین کی مناسبت سےپانی کی ضرورت طےکی جاتی ہے، اندازے کے مطابق فی گھریومیہ 50گیلن ضرورت کا تخمینہ ہے۔

ہاشم رضا نے مزید بتایا کہ کراچی کی ضرورت اس وقت850ملین گیلن پانی ہے، کراچی کو650ملین گیلن پانی اس وقت فراہم کیا جارہا ہے، کے فور منصوبے کی تکمیل 3سال میں مکمل ہوگی، کےفورسے900ملین گیلن سےزائدپانی دستیاب ہوگا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ مطلب صاف ہے لوگ3سال مزیدپانی کیلئےترسیں گے، 650 ملین گیلن پانی جو دے رہے وہ بھی گندا پانی ہے، سابق میئرمصطفی کمال نے پانی سےمتعلق تجویزدی تھی، تجویز تھی کے فور کو مستقبل کی مناسبت سے وسعت دی جائے، جس پر ہاشم رضا نے کہا کہ وزیراعلیٰ سندھ نے کے فور کے دیگرفیز پر کام کی ہدایت کردی ہے۔

جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ لوگ ہمیں کہتےہیں کس کام میں ہاتھ ڈال دیا یہ کام نہیں ہونا، ہم صاف صاف کہہ رہےیہ کام کئےبغیرہم نہیں جائیں گے۔

صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نےبھی کرنی ہےکرلے، چیف جسٹس

شہریوں کو گندے پانی کی فراہمی سے متعلق سماعت میں بنیادی سہولتوں کی سنگین صورتحال پر چیف جسٹس نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا صاف کہنا چاہتاہوں مجھے لیڈری کاکوئی شوق نہیں،مجھ پر تنقید جس نے بھی کرنی ہےکرلے، موجودہ کیفیت کا ذمہ دارہر وہ شخص ہے، جو برسر اقتدار رہا۔

انھوں نےلاہور کےمیئو اسپتال کا ذکر کرتے ہوئے کہا اعتراضات ہوئے، چیف جسٹس میو اسپتال کیوں گئے۔ اسپتال کا دورہ انسانی جانوں کےتحفظ کیلئے کیا، میواسپتال میں وینٹی لیٹرکی سہولت موجود نہیں تھی۔

پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرناپڑا کرینگے، چیف جسٹس

چیف جسٹس نے کہا آئین کےتحت بنیادی انسانی حقوق کاتحفظ عدلیہ کی ذمہ داری ہے، پانی اور صحت کی فراہمی کیلئے جو کرناپڑا کرینگے، ہم چاہتےہیں اپنے بچوں کوایک اچھاملک دے کر جائیں، صرف بچوں کوگاڑی خریدکردینا ہی کافی نہیں ہوتا۔

سندھ کے اسپتالوں کی ابتر صورتحال پر بھی چیف جسٹس کاازخودنوٹس

کراچی رجسٹری میں ہونے والی سماعت میں سندھ کے اسپتالوں کی ابتر صورتحال پر بھی چیف جسٹس نے ازخودنوٹس لے لیا، عدالت نے استفسار کیا کہ بتایا جائے پانچ سو بیڈ والے کتنے میڈیکل کالجزکیساتھ اسپتال ہیں؟ اسپتالوں سےمتعلق حلف نامے داخل کرائےجائیں، کیا صرف پیسوں سے ہی تعلیم دلوائی جاسکتی ہے؟ ایسے بھی ڈاکٹرز ہیں جنہیں بلڈپریشرچیک کرنانہیں آتا۔

اعلی عدالت نےسرکاری افسران کی تقرری وتبادلوں پرپابندی اٹھالی۔ چیف جسٹس نے کہا سوائے چیف سیکریٹری کےکسی بھی افسرکاتقرریاتبادلہ کریں، بندہ آپ کی مرضی کا مگرکام ہماری مرضی کاہوناچاہیے۔

سپریم کورٹ نےسماعت آئندہ سیشن تک ملتوی کردی۔


اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی وال پر شیئر کریں۔

Comments

- Advertisement -