لاہور: نجی اسپتالوں میں مہنگے علاج سے متعلق سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ڈاکٹرز اسپتال انتظامیہ کو طبی اخراجات پرنظرثانی کرنے کا حکم دے دیا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں نجی اسپتالوں میں مہنگے اسپتالوں میں مہنگے علاج سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔
عدالت میں سماعت کے دوران چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ڈاکٹر لوگوں کی خدمت نہیں کرسکتے تو اسپتال بند کردیں۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیے کہ مریضوں سے روز کا ایک لاکھ روپے وصول کرتے ہیں، دل کے اسٹنٹ ڈالنے کے ایک لاکھ وصول کر نے کا حکم دیا تھا۔
انہوں نے استفسار کیا کہ عدالتی حکم کے باوجود اضافی پیسے کیسے وصول کرسکتے ہیں؟ پی ایم ڈی سی نے جو طے کیا اس سے زیادہ کوئی وصول نہیں کرے گا۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پی ایم ڈی سی نے جو طے کیا اس سے زیادہ کوئی وصول نہیں کرے گا ، ایک مریض کا 30 دن کا بل آپ نے 40 لاکھ روپے بنا دیا۔
انہوں نے کہا کہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں ورنہ عدالت فیصلہ کرے گی، غریبوں کو بھی اچھا علاج کرانے دیں۔
ڈی جی ایل ڈی اے نے عدالت کو بتایا کہ ڈاکٹرز اسپتال نے تجاوزات قائم کر رکھی ہیں، ایک کنال کے رہائشی پلاٹ پر تجارتی سرگرمیاں ہوتی ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جواسپتال قانون کے خلاف بنے وہ گرا دیے جائیں، انہوں نے سوال کیا کہ کیا نجی اسپتال صرف امیروں کےلیے بنائے جاتے ہیں۔
انہوں نے ریمارکس دیے کہ کوئی عدالت نجی اسپتالوں کے خلاف کارروائی میں دخل نہیں دے گی، نجی اسپتالوں کا معاملہ سپریم کورٹ خود دیکھ رہی ہے۔
جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیے کہ اسپتالوں کا مقصد زیادہ سے زیادہ نفع کمانا نہیں ہونا چاہیے، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ جن کے پاس طاقت اورپیسہ آتا ہے وہ خود کوقانون سے بالا سمجھتے ہیں۔
عدالت میں سماعت کے دوران نجی اسپتال کے سی ای اوعدالت میں پیش ہوئے، جسٹس اعجازالاحسن گندی جگہ پر اسپتال بنانے کی کس نے اجازت دی ؟۔
نجی اسپتال کی انتظامیہ کی جانب سے بتایا گیا کہ اجازت 1994 میں ملی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ کویہاں سے اسپتال کسی اورجگہ منتقل کرنا پڑے گا۔
سپریم کورٹ نے ڈاکٹرز اسپتال انتظامیہ کو اپنے چارجز پرنظر ثانی کرنے کا حکم دے دیا۔