تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

کیا پاکستان کے کلائمٹ متاثرین کے نقصانات کا ازالہ ممکن ہے؟

رواں برس مون سون کی بارشوں نے ملک کے بڑے حصے کو سیلابی صورتحال سے دو چار کردیا ہے، ملک کے ہر حصے میں تباہی و بربادی کی تاریخ رقم ہوچکی ہے اور اس بربادی سے المیوں کی داستانیں جنم لے رہی ہیں۔

اس سال ہونے والی غیر معمولی بارشوں نے سینکڑوں افراد کی جانیں لیں، مکانات، کھڑی فصلیں، انفرااسٹرکچر، مال مویشی سب کچھ سیلاب میں بہہ گیا۔ لاکھوں لوگ ان قیامت خیز بارشوں میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھے اور اب بے سرو سامانی کی حالت میں خیموں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

محکمہ موسمیات کے مطابق اس سال ملک بھر میں مجموعی طور پر 210 فیصد زائد بارشیں ہوئی ہیں، سب سے زیادہ بارشیں صوبہ سندھ اور بلوچستان میں ہوئیں جہاں بارشوں کی شرح بالترتیب 508 اور 506 فیصد زائد رہی۔

گلگت بلتستان میں 148 فیصد، پنجاب میں 86 فیصد اور خیبر پختونخواہ میں 44 فیصد زیادہ بارشیں ہوئیں۔

نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے اعداد و شمار کے مطابق 14 جون سے اب تک بارشوں اور سیلاب سے 11 سو 36 افراد جاں بحق اور 16 سو سے زائد زخمی ہوچکے ہیں، 10 لاکھ 51 ہزار مکانات، 162 پل، اور 34 ہزار 71 کلومیٹر سڑکیں تباہ ہوچکی ہیں، جبکہ 7 لاکھ 35 ہزار سے زائد مویشی مر چکے ہیں۔

ملک بھر میں اب تک سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کا کہنا ہے کہ ابتدائی اندازوں کے مطابق اب تک 10 ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے۔

غیر معمولی بارشوں کی وجہ کیا بنی؟

دنیا بھر کے موسموں میں ہونے والے تبدیلی (کلائمٹ چینج) اور عالمی درجہ حرارت میں اضافے (گلوبل وارمنگ) کی وجہ سے تقریباً پوری دنیا میں اسی نوعیت کے شدید موسمی ایونٹس رونما ہورہے ہیں، تاہم ترقی پذیر ممالک ان آفات سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، جو بظاہر تو قدرتی آفات ہیں، لیکن اس کی وجہ انسانی سرگرمیاں ہیں۔

ورلڈ میٹرولوجیکل آرگنائزیشن کے مطابق انسانی سرگرمیوں (خاص طور پر صنعتی سرگرمیوں) کی وجہ سے ہماری فضا میں کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج کہیں زیادہ ہوگیا ہے، جو زمین کا مجموعی موسم تبدیل کر رہی ہیں، نتیجتاً قدرتی آفات میں اضافہ ہورہا ہے۔

اور نہ صرف اضافہ ہورہا ہے بلکہ ان کی شدت بھی بڑھ گئی ہے اور ان سے ہونے والے نقصانات کی شرح بھی کئی گنا زیادہ ہوگئی ہے۔

بلوچستان میں 506 فیصد زائد بارشیں ہوئیں

اس وقت گرین ہاؤس گیسز کے اخراج میں سب سے زیادہ حصہ دار چین اور امریکا ہیں، چین نے سال 2019 میں 9 ہزار 877 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کا اخراج کیا، امریکا 4 ہزار 745 میگا ٹن گرین ہاؤس گیسز کے اخراج کے ساتھ اس فہرست میں دوسرے نمبر پر ہے۔

امریکی ادارہ برائے تحفظ ماحولیات کے مطابق عالمی طور پر خارج کی جانے والی گرین ہاؤس گیسز میں چین 27 فیصد اور امریکا 15 فیصد کا حصے دار ہے۔

دوسری جانب پاکستان کا گرین ہاؤس گیسز کا اخراج 1 فیصد سے بھی کم صرف 0.6 فیصد ہے، تاہم جب کلائمٹ رسک انڈیکس کی ان ممالک کی درجہ بندی دیکھی جائے جو کلائمٹ چینج کے نقصانات سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں، تو پاکستان وہاں آٹھویں نمبر پر ہے، یعنی کلائمٹ چینج کے نقصانات سے براہ راست سب سے زیادہ متاثر ہونے والے 10 ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔

اور صرف پاکستان ہی نہیں، اس فہرست میں شامل تمام ممالک گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے تقریباً نہ ہونے کے برابر ذمے دار ہیں۔ یہ امیر ممالک کی ترقی اور صنعتی سرگرمیاں ہیں جو بڑے پیمانے پر پوری زمین کا موسم تبدیل کر رہی ہیں اور اس کا خمیازہ غریب ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔

پرائم منسٹر ٹاسک فورس آن کلائمٹ چینج کے سابق رکن ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ کلائمٹ چینج اب کوئی مفروضہ نہیں رہا، یہ حقیقت بن چکا ہے اور نہایت خوفناک طریقے سے سامنے آرہا ہے۔

ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ہم دہائیوں سے اس خطرے کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ کلائمٹ چینج سے پاکستان اور دیگر ترقی پذیر ممالک کو بے تحاشہ نقصانات ہوں گے، اور اب یہ خطرات حقیقت بن چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ حالیہ مون سون بارشیں معمول کی بارشیں نہیں اور یہ مون سون کا پیٹرن بھی نہیں، یہ کلائمٹ چینج کی وجہ سے اس قدر غیر معمولی بارشیں ہوئی ہیں کہ سب کچھ بہا کر لے گئیں۔

محکمہ موسمیات پاکستان کے سابق ڈائریکٹر جنرل اور کئی بین الاقوامی جامعات میں ایٹموسفرک فزکس کی تعلیم دینے والے ڈاکٹر غلام رسول اس بارے میں کہتے ہیں کہ اگر آپ گزشتہ کچھ سالوں کی موسمیاتی تبدیلیوں کا جائزہ لیں تو آپ کو کلائمٹ چینج کے اثرات واضح طور پر نظر آئیں گے۔

ڈاکٹر غلام رسول کا کہنا تھا کہ بہار کا موسم آہستہ آہستہ کم ہوتا جارہا ہے اور اس کی جگہ موسم گرما نے لے لی ہے، موسم گرما کا دورانیہ اور شدت بہت زیادہ بڑھ گئی ہے جو ہماری زراعت کو متاثر کر رہا ہے، آبی ذخائر کو خشک کر رہا ہے، اور گلیشیئرز کو بھی پگھلا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پہلے مون سون کی بارشوں کا سلسلہ شمال مشرق سے شروع ہوتا تھا اور خیبر پختونخواہ اور پھر جنوب کی طرف آتا تھا، لیکن اس سال مون سون شروع ہی جنوب سے ہوا۔

سیلاب سے لاکھوں ایکڑ زرعی زمین متاثر ہوئی ہے

ڈاکٹر غلام رسول کے مطابق اب ان علاقوں میں بھی بارشوں کا سلسلہ دیکھا گیا جہاں مون سون کی بارشیں عموماً نہیں ہوتی تھیں، جیسے گلیشیئرز کے اطراف کے علاقے، اگر یہاں پر بھی بارشیں ہورہی ہیں تو پھر اس کا براہ راست خطرہ گلیشیئرز کو ہے جو پہلے ہی گرمی سے پگھل رہے ہیں، اور اب بارشوں کی وجہ سے مزید پگھلیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کلائمٹ چینج نے غیر یقینی صورتحال کو جنم دیا ہے، اب مون سون کا دورانیہ طویل بھی ہوسکتا ہے، اس کی شدت بھی زیادہ ہوسکتی ہے، لہٰذا یہ کہنا مشکل ہے کہ مستقبل میں ہمیں کس قدر نقصانات سہنے ہوں گے۔

کیا امیر ممالک اس کی ذمہ داری قبول کریں گے؟

گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کے بڑے حصے دار اور امیر ممالک کی صنعتی سرگرمیاں کلائمٹ چینج کے ذریعے کس طرح ترقی پذیر ممالک کو متاثر کر رہی ہیں، صرف پاکستان اس کی ایک مثال نہیں، متعدد ایشیائی ممالک گزشتہ کچھ سال سے کم و بیش اسی صورتحال کا سامنا کر رہے ہیں۔

پاکستان، بنگلہ دیش، بھارت (بھارت خود بھی گرین ہاؤس گیسز میں اضافے کا ایک بڑا حصے دار ہے) اور دیگر ایشیائی، افریقی اور کیریبیئن ممالک گزشتہ کچھ سالوں سے شدید ہیٹ ویوز، طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی زد میں ہیں اور ہر سال بے تحاشہ جانی و مالی نقصانات اٹھا رہے ہیں۔

تو کیا امیر ممالک اس تباہی کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے ان نقصانات کے ازالے کی کوشش کریں گے؟ کیا یہ امیر ممالک ان نقصانات کی بحالی کے لیے دی گئی رقوم کو قرض یا امداد کا نام دینے کے بجائے اسے اپنا فرض سمجھ کر ادا کریں گے؟

ہر سال ہونے والی بین الاقوامی کانفرنسز میں جب ماحولیاتی نقصانات کی طرف توجہ دلائی جاتی ہے اور امیر ممالک کو بتایا جاتا ہے کہ اس کی ذمہ دار ان کی صنعتی سرگرمیاں ہیں، تو یہ ممالک کندھے اچکا کر اپنا کاربن اخراج کم کرنے کے وعدے کرلیتے ہیں، لیکن اگر وہ اس وعدے کو وفا بھی کرلیتے ہیں تو یہ کمی اتنی کم ہوتی ہے، کہ اگلے سال تک ہونے والا ماحولیاتی نقصانات اس سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔

سنہ 2009 میں ڈنمارک کے دارالحکومت کوپن ہیگن میں ہونے والی یونائیٹڈ نیشنز کلائمٹ چینج کانفرنس میں (جسے COP بھی کہا جاتا ہے)، کئی سول سوسائٹی تنظیموں نے مل کر ایک تحقیقی ڈیٹا پیش کیا اور کہا کہ امریکا اور یورپی یونین، افریقہ، ایشیا اور دیگر ترقی پذیر ممالک میں کلائمٹ چینج کی وجہ سے آنے والی آفات میں ہونے والے 54 فیصد مالی نقصان کے ذمہ دار ہیں۔

اور پھر اسی سال ایک ازالہ جاتی فنڈ کا قیام عمل میں لانے کی منظوری دی گئی، لیکن اس کے پیچھے ترقی پذیر ممالک کی کئی سالہ کوشش تھی۔

یہ ازالہ جاتی فنڈ کون سا ہے؟

طویل عرصے تک جب اس بات پر زور دیا جاتا رہا کہ وہ امیر ممالک جن کی صنعتی سرگرمیوں سے کاربن اور دیگر مضر گیسز کا اخراج ہورہا ہے، اور اس کی وجہ سے عالمی درجہ حرارت میں اضافہ ہو رہا ہے، اور پھر یہ اضافہ پوری دنیا میں قدرتی آفات کا سبب بن رہا ہے، ایسے ممالک کو ان آفات اور اس سے ہونے والے نقصانات کا اخلاقی طور پر ذمہ دار ٹھہرایا جائے، تو بالآخر ان امیر ممالک نے ازالے کی رقم دینے کی ہامی بھرلی۔

سنہ 1992 میں قائم کی جانے والی اقوام متحدہ کی باڈی یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج (یو این ایف ٹرپل سی) کے تحت ایک فنڈنگ ادارہ قائم کیا گیا جسے گرین کلائمٹ فنڈ کا نام دیا گیا۔

سنہ 2010 میں قائم کی جانے والی اس فنڈنگ باڈی کا مقصد ہے، ترقی پذیر ممالک کو گلوبل وارمنگ میں کمی اور اس سے ہم آہنگی کرنے والے اقدامات کرنے کے لیے مالی معاونت فراہم کی جائے۔

یہ فنڈ ترقی یافتہ امیر ممالک کو پابند کرتا ہے کہ وہ کلائمٹ چینج سے متاثر ہونے والے ممالک کے نقصانات کا ازالہ کریں۔

اس فنڈ کے قیام کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ امیر ممالک، غریب ممالک کے ماحول دوست پالیسیز کی طرف منتقل ہونے میں مالی مدد کریں، کیونکہ ماحول دوست ذرائع مثلاً سولر انرجی بنانا، توانائی کے عام ذرائع یعنی کہ پیٹرول یا کوئلے وغیرہ کی نسبت خاصا مہنگا ہے، غریب ممالک مہنگا ہونے کے باعث ماحول دوست ذرائع نہیں اپنا سکتے اور مجبوراً وہ ماحول کو نقصان پہنچانے والے ذرائع استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے امریکا، یورپی ممالک اور دیگر امیر ممالک کو پابند کیا گیا کہ وہ ایک مقررہ رقم اس فنڈ میں جمع کروائیں۔

پاکستان اس فنڈ کے قائم ہونے سے اب تک اس سے نہایت ہی معمولی سا فائدہ اٹھا سکا ہے۔ گرین کلائمٹ فنڈ کے تحت اب تک پاکستان کو صرف 4 منصوبوں کے لیے فنڈ مل سکا ہے جن کی مالیت 131 ملین ڈالرز ہے، ان 4 منصوبوں میں سے ایک کراچی کا گرین بی آر ٹی منصوبہ بھی ہے۔

شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جس حساب سے پاکستان میں کلائمٹ چینج سے نقصانات ہو رہے ہیں، اس حساب سے پاکستان اس فنڈ سے مستفید ہونے میں ناکام رہا ہے۔

کلائمٹ فنانس کی ایکسپرٹ کشمالہ کاکاخیل اس حوالے سے بتاتی ہیں کہ یہ پروگرام کسی نقصان کی صورت میں فوری ازالہ کرنے والے اقدامات کے لیے نہیں ہے۔ حالیہ سیلاب میں ہمیں متاثرین کے ریسکیو اور ریلیف کے لیے اب تک جو بھی رقم ملی ہے وہ فوری طور پر انسانی ہمدردی کے تحت ملی ہے۔

کشمالہ کا کہنا ہے کہ اس پروگرام سے فائدہ اٹھانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم طویل المدتی اور پائیدار ترقیاتی منصوبے مکمل جزئیات اور تفصیلات کے ساتھ پیش کریں۔

انہوں نے کہا کہ اس فنڈ کے لیے مختلف ممالک اپنے پروجیکٹس پیش کرتے ہیں اور اس میں سے چند پروجیکٹس کو منتخب کر کے انہیں فنڈنگ دی جاتی ہے۔ پروجیکٹ بنانے سے قبل اس کا جائزہ لینا اور تحقیق کرنا، اسے تمام اعداد و شمار کے ساتھ پیش کرنا، اس میں کمی بیشی کو دور کرنا، اور پھر اس کی منظوری ہونا اور اس کے بعد اس پر کام شروع ہونا، یہ سب سالوں کے عرصے پر محیط ہوتا ہے۔

یہ پروجیکٹس کون سے ہوں گے؟

چنانچہ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسے منصوبے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں، طویل المدتی ہوں، پائیدار ہوں، اور کسی قدرتی آفت کے بعد نقصان کی شرح کم سے کم کرسکیں، کون سے ہو سکتے ہیں؟

اس حوالے سے ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ایسے منصوبے بنانے سے پہلے ملک میں جو مس مینجمنٹ موجود ہے، اسے ٹھیک کیا جانا ضروری ہے۔

وہ کہتے ہیں، ’ہم کس منہ سے دنیا سے پیسے مانگیں گے؟ کہ ہم نے دریا کے راستے میں ہوٹل تعمیر کرلیے، سیلاب میں وہ ہوٹل گر گئے، اب ہمارے اتنے لاکھ لوگ بیروزگار اور تباہ حال ہیں، ان کے لیے ہمیں پیسے دیے جائیں تاکہ ہم پھر سے اسی سیلابی راستے میں تعمیرات کریں۔ اس طرح تو ہمیں کوئی پیسے نہیں دینے والا‘۔

ان کا کہنا ہے کہ پہلے ہمیں اپنی ترجیحات طے کرنی ہوں گی، ڈیزاسٹر مینجمنٹ بعد کی چیز ہے، پہلے ہمیں دنیا کی طرح ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو کلائمٹ چینج سے ہم آہنگ ہوں تاکہ کسی آفت کی صورت میں ہمارا کم سے کم نقصان ہو۔ لیکن ایسی پالیسیز بنانا ہماری ترجیحات نہیں، البتہ ڈیزاسٹر کے بعد ہم اس کی تباہ کاری سے نمٹنے کے لیے ضرور اپنے وسائل استعمال کرلیتے ہیں۔

دریا میں بنایا گیا کالام کا ہوٹل جو سیلاب میں بہہ گیا

ڈاکٹر پرویز امیر کا کہنا تھا کہ ہمارا باقاعدہ کوئی ریسکیو سسٹم ہی نہیں، قدرتی آفات میں خیراتی ادارے ہی ہمارا واحد سہارا ہوتے ہیں۔ ایسے میں ہم کیا توقع رکھتے ہیں کہ دنیا کلائمٹ چینج سے نمٹنے میں ہماری مدد کرے۔

وہ کہتے ہیں، کہ ایک تو عالمی طور پر رونما ہونے والا کلائمٹ چینج، پھر ہماری مس مینجمنٹ اور فطرت سے تصادم کا شوق، یہ سب مل کر ہمارے انسانی وسائل کو بے حد نقصان پہنچا رہے ہیں جن کی بڑی تعداد ویسے ہی غربت میں زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔

تو کیا پاکستان کے پاس ایسے پائیدار ترقیاتی منصوبے ہیں؟

کشمالہ کاکا خیل کا کہنا ہے کہ پاکستان فی الحال 4 سے 5 کلائمٹ ریزیلیئنٹ منصوبوں پر کام کر رہا ہے جو جلد ہی گرین کلائمٹ فنڈنگ کے لیے پیش کردیے جائیں گے۔

انہوں نے کہا کہ سیلاب سے فوری طور پر ریلیف کے لیے تو کئی ممالک کی امداد منظور ہوچکی ہے، اب آگے ہمیں ایسے منصوبوں کے لیے فنڈنگ درکار ہے جس سے مستقبل میں ایسے قدرتی آفات کے دوران کم سے کم نقصان ہو، اور اس کے لیے طویل المدتی اور جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ہم 2010 کے سیلاب کے بعد ایسے منصوبے بنا لیتے، جن میں قدرتی آفات کو مدنظر رکھتے ہوئے تعمیرات اور آباد کاری کی جاتی تو اب شاید ہم اتنا نقصان نہ اٹھاتے۔

کشمالہ کا کہنا ہے کہ اب ضروری ہے کہ ہم یقینی بنائیں کہ سیلاب کے راستے میں تعمیرات نہ کی جائیں، ارلی وارننگ سسٹمز کو مضبوط بنایا جائے، اور فطرت سے تصادم کا راستہ نہ اپنایا جائے، تب ہی ہمارے قیمتی انسانی اور مالی وسائل کی حفاظت ہوسکے گی ورنہ کچھ سال بعد ہم پھر اسی صورتحال سے گزر رہے ہوں گے اور ہمارے کلائمٹ متاثرین میں اضافہ ہوتا رہے گا۔

Comments

- Advertisement -