تازہ ترین

حکومت کا ججز کے خط پر انکوائری کمیشن بنانے کا اعلان

اسلام آباد: وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ...

فوجی عدالتوں سے 15 سے 20 ملزمان کے رہا ہونے کا امکان

اسلام آباد : اٹارنی جنرل نے فوجی عدالتوں سے...

نواز شریف نے دوسرے دور حکومت میں چیف جسٹس پاکستان سے کیسے محاذ آرائی کی؟ سابق اہم سرکاری شخصیت کے انکشافات

اسلام آباد: نواز شریف نے اپنے دوسرے دور حکومت میں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے محاذ آرائی کی تھی، اس سلسلے میں سابق اہم سرکاری شخصیت کے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

تفصیلات کے مطابق ایک سابق اہم سرکاری شخصیت نے اے آر وائی نیوز کے ساتھ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت سے متعلق تفصیلات شیئر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سابق وزیر اعظم نے اُس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے کیسے محاذ آرائی کی، اور معمولی بات پر بڑا طوفان کیسے آیا؟

اس اہم سابق سرکاری شخصیت کا تعلق 1997 سے 1998 تک وفاقی حکومت کی قانونی ٹیم سے تھا، انھوں نے اے آر وائی نیوز سے سابق چیف جسٹس سجاد علی شاہ کے معاملے پر گفتگو کی، اور کہا کہ جو کچھ اب عدلیہ کے ساتھ ہو رہا ہے، یہ 1997 کی نقل ہے۔

سابق سرکاری شخصیت نے بتایا کہ جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ نواز شریف کے معاملات کی خرابی محکمہ انہار کے معاملے پر ہوئی تھی، نواز شریف نے دورہ فیصل آباد پر محکمہ انہار کے 4 ملازمین کو معطل کر دیا تھا، لیکن جسٹس سجاد علی شاہ نے ازخود نوٹس لے کر کہا کہ صوبائی معاملے میں وزیر اعظم کیسے مداخلت کر سکتا ہے؟

سابق سرکاری شخصیت کے مطابق جسٹس سجاد علی شاہ نے معطل ملازمین کو بحال کر دیا، تو نواز شریف نے اٹارنی جنرل کو کیس میں پیش ہونے سے منع کیا اور ڈپٹی اٹارنی کو بھیج دیا، پھر واپڈا نے کچھ ریکوریز کرنی تھی تو سپریم کورٹ نے اس میں حکم امتناع دے دیا، نواز شریف نے اس پر میٹنگ میں غصے میں مجھے کہا ’’دیکھو یہ کیا کر رہےہیں۔‘‘

سابق سرکاری شخصیت نے بتایا ’’تیسری بدمزگی انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالتوں کے قیام پر ہوئی، نواز شریف کے والد نے دونوں کی ملاقات کرائی اور معاملہ رفع دفع کرا دیا، لیکن 2 روز بعد نواز شریف نے پھر کہا کہ ہم خصوصی عدالتیں ضرور بنائیں گے، اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب خواجہ شریف سے کہا کہ ججز کے ناموں کی فہرست دیں۔‘‘

اس معاملے پر بات پارلیمنٹ میں چیف جسٹس کے خلاف قرارداد لانے تک پہنچ گئی اور مجھے (سابق سرکاری شخصیت) کہا گیا کہ متن تیار کروں، یہ بھی طے ہو گیا کہ قرارداد چوہدری نثار ایوان میں پیش کریں گے، اس بار شہباز شریف بیچ میں پڑے اور معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔

سابق سرکاری شخصیت نے کہا ’’شہباز شریف نے مجھے کہا کہ میاں صاحب گوشت کہیں تو آپ نے دال کا کہنا ہے، گوشت اور دال سے ہی بات آلو شوربے تک پہنچے گی۔‘‘

انھوں نے بتایا ’’قراداد لانے کا معاملہ ختم ہوا تو کچھ دنوں بعد میاں صاحب نے ناراضی ظاہر کی، سابق جج اور سینئر وکیل کو کوئٹہ بنچ کے پاس بھیجا گیا، میری اطلاع کے مطابق اس میں پیسوں کا کوئی استعمال نہیں ہوا تھا، کوئٹہ کے 3 رکنی بنچ نے چیف جسٹس سجاد علی شاہ کی تعیناتی معطل کر دی۔‘‘

سابق سرکاری شخصیت کے مطابق ’’جسٹس سجاد علی شاہ نے کوئٹہ بنچ کے آرڈر کو معطل کر دیا تو جسٹس سعید الزماں صدیقی نے معطلی کا آرڈر معطل کر دیا، پھر سپریم کورٹ بار کے صدر عابد حسن منٹو درمیان میں آئے اور معاملہ ٹھنڈا ہو گیا، لیکن دوبارہ نواز شریف نے کہا کہ جسٹس اجمل میاں کو قائم مقام چیف جسٹس بنایا جائے۔‘‘

انھوں نے بتایا ’’صدر لغاری کے پاس نئے چیف جسٹس کی سمری گئی تو انھوں نے فوری دستخط نہیں کیے، نواز شریف کو صدر لغاری سے خطرات کا اندیشہ ہوا، اس سے بچنےکے لیے نواز شریف نے جنرل جہانگیر کرامت سے 2 گھنٹے کی ملاقات کی، جس کے بعد نواز شریف نے باہر نکل کر ہاتھ اٹھا کر کہا فکر نہ کریں یہ ہمارے ساتھ ہیں، پھر مجھے صدر لغاری کے پاس اہم پیغام دے کر بھیجا گیا، میں نے صدر سے کہا کہ سمری پر دستخط کریں یا استعفیٰ دے دیں۔‘‘

سابق سرکاری شخصیت کے مطابق ’’صدر لغاری نے کہا میں آپ سے اس طرح کی غلط زبان کی توقع نہیں رکھتا تھا، میں نے کہا سر یہ میری زبان نہیں مجھے وزیر اعظم نے ایسا کہا ہے، پھر صدر فاروق لغاری نے کہا ہاں میں جانتا ہوں کہ آپ ایسے نہیں کہہ سکتے، پھر فاروق لغاری نے صدارت سے استعفیٰ دے دیا۔‘‘

Comments

- Advertisement -