ذوالفقار علی بھٹو نے جس وقت پاکستان کے صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا تو سب سے پہلے دستور سازی کی طرف توجہ دی۔ اس سے قبل ملک کے دو آئین مارشل لا کی نذر ہوچکے تھے۔
یہ ایک نہایت اہم اور سنجیدہ مسئلہ تھا اور اس وقت کی اسمبلی اور ذوالفقار علی بھٹو کی آزمائش بھی۔ اس وقت ایک کمیٹی کا قیام عمل میں لایا گیا جس کا مقصد پاکستان کو نیا اور متفقہ آئین دینا تھا۔
اس حوالے سے اختلافات اور مباحث میں ملک میں پارلیمانی نظام یا صدارتی نظام کے علاوہ صوبائی خود مختاری کا معاملہ بھی شامل تھا۔ آٹھ ماہ بعد اس آئینی کمیٹی کی رپورٹ سامنے آئی اور مسودہ پیش کیا جو 10 اپریل 1973 کو وفاقی اسمبلی میں منظور کر لیا گیا۔
آج وہ یادگار دن ہے جب پاکستان کا موجودہ آئین منظور ہوا جسے اس وقت کی تمام سیاسی جماعتوں نے قبول کیا اور ملک کے عوام کی امنگوں کا ترجمان قرار دیا۔
قومی اسمبلی کے اس وقت 128 ارکان میں سے 125 نے اس آئین کے لیے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کیا اور 12 اپریل 1973 کو صدر مملکت کی حیثیت سے ذوالفقار علی بھٹو نے اس آئین کے مسودے پر دستخط کیے۔