تازہ ترین

ضمنی انتخابات میں فوج اور سول آرمڈ فورسز تعینات کرنے کی منظوری

اسلام آباد : ضمنی انتخابات میں فوج اور سول...

طویل مدتی قرض پروگرام : آئی ایم ایف نے پاکستان کی درخواست منظور کرلی

اسلام آباد: عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے...

ملک میں معاشی استحکام کیلئےاصلاحاتی ایجنڈےپرگامزن ہیں، محمد اورنگزیب

واشنگٹن: وزیرخزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ملک...

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

کرونا وائرس کس طرح نیند پر اثر انداز ہوتا ہے ؟ جانئے

کووڈ نائٹین سے متاثر افراد میں ذہنی امراض، تھکاوٹ اور نیند کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی، اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے۔

مانچسٹر یونیورسٹی کے نیشنل انسٹیٹوٹ فار ہیلتھ ریسرچ گریٹر مانچسٹر پیشنٹ سیفٹی ٹرانسلیشنل ریسرچ سینٹر کی اس تحقیق میں فروری 2020 سے دسمبر 2020 کے دوران برطانیہ بھر کے 2 لاکھ 26 ہزار سے زیادہ افراد کے طبی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کی گئی۔

تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کا پی سی آر ٹیسٹ مثبت آنے کے بعد مریض کی جانب سے تھکاوٹ کی شکایت کا امکان لگ بھگ 6 گنا بڑھ جاتا ہے جبکہ نیند کے مسائل کا خطرہ 3 گنا بڑھا۔

تحقیق میں ایک اور انکشاف ہوا کہ کووڈ کی تشخیص کے بعد کسی قسم کی ذہنی مرض کا امکان بھی 83 فیصد تک بڑھ جاتا ہے، درحقیقت تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ منفی پی سی آر ٹیسٹ کے بعد بھی ذہنی امراض کا خطرہ 71 فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کینسر کی ویکسین کب تک مارکیٹ میں آ جائے گی؟

محققین کا ماننا ہے کہ اس سے یہ کچھ شبہات پیدا ہوتے ہیں کہ کووڈ براہ راست ذہنی امراض کا باعث ہے یا نہیں، کیونکہ یہ واضح ہے کہ ٹیسٹ کرانے والے فرد میں ذہنی امراض کے عناصر کا خطرہ زیادہ ہوسکتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ جب ہم نے اس تحقیقی پراجیکٹ کا آغاز کیا تو ہم ایسے شواہد کو دریافت کرنا چاہتے تھے جن سے عندیہ ملے کہ کووڈ 19 سے ذہنی امراض، نیند اور تھکاوٹ کے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ اگرچہ تھکاوٹ واضح طور پر کووڈ 19 سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے، مگر نیند کے مسائل کا خطرہ بھی بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے، مگر ہمیں اس حوالے سے شبہات ہیں کہ کووڈ 19 براہ راست ذہنی صحت کو متاثر کرنے والا مرض ہے یا ذہنی مسائل سے دوچار افراد کی جانب سے ٹیسٹ کرانے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ خطرات بڑھانے والے میکنزمز کی شناخت ہمارے شعبے کے محققین کے لیے اگلا بڑا چیلنج ہے۔

Comments

- Advertisement -