تازہ ترین

کچے کے ڈاکوؤں کو اسلحہ فراہم کرنیوالے 3 پولیس افسران سمیت 7 گرفتار

کراچی : پولیس موبائل میں جدید اسلحہ سندھ اسمگل...

پاکستان کو آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر قرض پروگرام کی توقع

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا ہے کہ...

اسرائیل کا ایران پر فضائی حملہ

امریکی میڈیا کی جانب سے یہ دعویٰ سامنے آرہا...

بات کرنے اور سانس لینے سے کورونا پھیل سکتا ہے، تحقیق میں خطرناک انکشاف

کوویڈ19 تقریبا 170 ممالک کو اپنی گرفت میں لے چکا ہے اور اس کے باعث اب تک لاکھوں افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کورونا وائرس بہت تیزی سے پھیل رہا ہے لیکن اس سے بھی ذیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کے بارے میں غلط حقائق بھی عوام الناس میں اسی رفتار سے پھیل رہے ہیں۔

سنگا پور میں ہونے والی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ سانس لینے، گانا گانے، بات کرنے اور منہ سے خارج ہونے والے ننھے ایروسول ذرات کوویڈ کے پھیلاؤ میں ممکنہ طور پر اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کوویڈ 19 کے بارے میں یہ تو معلوم ہے کہ اس کے پھیلنے کی بڑی وجہ کسی متاثرہ فرد کی کھانسی یا چھینکیں ہوتی ہیں، مگر اس کے پھیلاؤ کے حوالے سے سانس لینے، بات کرنے اور گانے جیسی سرگرمیوں کے حوالے سے زیادہ معلوم نہیں۔

اب سنگاپور کی نیشنل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ متاثرہ فرد کے بات کرنے اور گانے کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ننھے وائرل ذرات سے بھی یہ بیماری آگے پھیل سکتی ہے۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ بولنے یا گانے سے بننے والے ننھے ایرول سول ذرات (5 مائیکرو میٹر سے چھوٹے) میں بڑے ایروسولز کے مقابلے میں زیادہ وائرل ذرات ہوتے ہیں۔

تحقیق کے مطابق یہ ننھے ذرات ممکنہ طور پر کووڈ کے پھیلاؤ میں نمایاں کردار ادا کرتے ہیں بالخصوص کسی چار دیواری کے اندر۔

محققین نے بتایا کہ اگرچہ سابقہ حقیقی رپورٹس میں بات کرنے اور گانے سے خارج ہونے والے ایروسول ذرات کی مقدار پر روشنی ڈالی گئی، مگر یہ جانچ پڑتال نہیں کی گئی اس سے کتنی مقدار میں کورونا وائرس والے ذرات بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری معلومات کے مطابق یہ پہلی تحقیق ہے جس میں سانس لینے، بات کرنے اور گانے کے دوران بننے والے ایروسولز میں کووڈ ذرات کی تعداد کا موازنہ کیا گیا۔

اس تحقیق میں کووڈ کے 22 مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جو سنگاپور کے نیشنل سینٹر فار انفیکشیز ڈیزیز (این سی آئی ڈی) میں فروری سے اپریل 2021 کے دوران زیرعلاج رہے تھے۔ ان سب افراد کو 3 مختلف سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا۔

ان افراد کو 30 منٹ تک سانس لینے، 15 منٹ تک بچوں کی ایک کتاب کی تحریر کو بلند آواز میں پڑھنے اور 15 منٹ تک گانے جیسی سرگرمیوں کا حصہ بنایا گیا تھا۔

ان سرگرمیوں کے دوران منہ سے خارج ہونے والے ذرات کی جانچ پڑتال کے لیے خصوصی طور پر تیار کردہ آلات کا استعمال کیا گیا۔

یہ آلات رضاکاروں کے سروں پر نصب کیے گئے جو وینٹی لیشن ہڈ کا کام کرتے یعنی ہوا رضاکاروں کے سروں کے ارگرد سے باہر نکلتی، جس سے نظام تنفس کے ذرات کو ذخیرہ کرنا ممکن ہوجاتا۔

ایروسولز 2 مختلف حجم کے ہوتے ہیں ایک قسم کا حجم 5 مائیکرو میٹر سے زیادہ بڑے اور دوسرے کا حجم 5 مائیکرو میٹر سے چھوٹا ہوتا ہے۔

محققین نے بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ کے مریض بیماری کے آغاز میں ایروسولز سے بڑی تعداد میں وائرل ذرات کو خارج کرتے ہیں، تاہم لوگوں میں اس کی شرح مختلف ہوسکتی ہے۔

کچھ مریضوں کی جانب سے حیران کن طور پر گانے کے مقابلے میں بات کرنے کے دوران زیادہ وائرل ذرات کو خارج کیا گیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ نظام تنفس کے ذرات کے ساتھ ساتھ بات کرنے، سانس لینے یا گانے کے دوران خارج ہونے والے ننھے ذرات بھی کووڈ کے پھیلاؤ میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ چار دیواری کے اندر اس حوالے سے لوگوں کو زیادہ خطرہ ہوتا ہے اور اس سے بچنے کے لیے فیس ماسک کا استعمال، سماجی دوری اور ہوا کی نکاسی کا بہتر نظام زیادہ مؤثر احتیاطی تدابیر ہیں۔

کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا کے پھیلاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین کی جانب اس طریقہ کار سے وائرس کی نئی اقسام بالخصوص ڈیلٹا پر جانچ پڑتال کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔

اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل کلینکل انفیکشیز ڈیزیز کے آن لائن ایڈیشن میں شائع ہوئے۔

یاد رہے کہ جب بھی کوئی کورونا متاثرہ شخص کھانستا یا چھینکتا ہے یا سانس لیتا ہے تو یہ وائرس ہوا میں اور اردگرد کی چیزوں پر معلق ہو جاتا ہے اور اگر کوئی بھی اس وائرس آلود ہوا یا سطح کے پاس آئے یا ہاتھ لگائے تو وہ اس بیماری کا شکار ہو سکتا ہے۔

کوویڈ19 ہوا میں 9۔3 گھنٹے تک معلق رہتا ہے اور مختلف سطوحات پر ٹمپریچر کے مطابق 12۔9 دن تک موجود رہتا ہے تاہم ذیادہ تر سطوحات پر کورونا وائرس 1 سے 4 دن تک موجود رہتا ہے۔

Comments

- Advertisement -