کرونا وائرس کی ایک اہم علامت سونگھنے اور چکھنے کی حس سے محروم ہوجانا ہے، کچھ کیسز میں کرونا وائرس مریضوں کو غیر حقیقی ناخوشگوار بو کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے، ایسی کیفیت کو پیروسمیا یا اولفیکٹری ہیلوسینیشنز کہا جاتا ہے۔
ان میں سے کسی ایک کا بھی شکار ہونے والا شخص افسردگی یا ڈپریشن کا شکار ہو سکتا ہے۔
سعودی ویب سائٹ کے مطابق یادداشت کے کھو جانے سے جذبات اور یادیں بھی متاثر ہوتی ہیں، خاص طور پر طویل مدتی یادیں متاثر ہوتی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دماغ کے سامنے والے حصے میں موجود اولفیکٹری بلب کے ذریعے کسی بھی قسم کی بو کو پہچاننے میں مدد ملتی ہے۔ یہاں پر موجود اعصابی ریسیپٹرز کے ذریعے بو دماغ کے ان حصوں کو پہنچتی ہے جن کا تعلق جذبات اور یادداشت سے ہے۔
یہی وجہ ہے کہ کسی نہ کسی چیز کی بو سے لوگوں کی یادیں بھی وابستہ ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی مخصوص بو کسی ایسی یاد کو جنم دے جو کچھ لوگوں کے لیے خوشگوار نہیں ہوتیں۔ اس سب سے یہ نتیجہ نکلا کہ سونگھنے کی حس ہمارے جذباتی تجربات سے وابستہ ہوتی ہے۔
ایک تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ سونگھنے کی حس اور افسردگی کے مابین ایک باہمی رشتہ ہے کیونکہ سونگھنے کے احساس سے محروم ہونا افسردگی کے جذبات کو تیز کرتا ہے اور یہ افسردگی سونگھنے کی حس کے احساس کے کھو جانے کا باعث بن سکتی ہے۔
اس تحقیق میں 322 کرونا متاثرین شامل تھے جن کی سونگھنے کی حس مکمل یا جزوی طور پر غائب تھی، ان میں سے 56 فیصد نے بتایا کہ سونگھنے کی حس متاثر ہونے سے انہوں نے زندگی میں خوشی کھو دی ہے جبکہ 43 فیصد کا کہنا تھا کہ وہ ڈپریشن کا شکار ہو گئے ہیں۔
کرونا وائرس کا نہ صرف ہمارے جذبات پر اثر ہوتا ہے بلکہ یہ ہماری یادوں کو بھی ابھارتا ہے۔ تصور کریں کہ جذبات اور یادوں سے بھر پور زندگی سے اچانک یہ سب ختم ہو جائے۔
کرونا وائرس سے صحت یاب ہونے کے دو ماہ بھی اگر سونگھنے کی حس بحال نہیں ہوئی تو وہ چند ترکیبیں اپنائے جس سے اپنی حس کو واپس لانے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس کا ایک طریقہ یہ ہے کہ تیز خوشبو جیسے لیموں اور لونگ کو بیس سیکنڈ کے لیے مسلسل سونگھیں۔ ویسے تو عمر کے ساتھ ساتھ بھی سونگھنے کی حس متاثر ہوتی ہے لیکن اس ترکیب سے یہ حس بحال رہ سکتی ہے۔